021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تاخیر پر اسکالر شپ سے کٹوتی کا حکم
80941غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

مفتیان کرام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ علی جو کہ ایک اسکول میں پڑھتا ہے اور اس اسکول میں علی کو اسکالر شپ دی جاتی ہے جو کہ تقریبا چھ ہزار بنتی ہے اور یہ اسکالر شپ کسی مالدار کی جانب سے اسکول کے بچوں کے لیے ہدیہ کے طور پر دی جاتی ہے اور اسکول کے پرنسپل کو ہدیہ دینے کے لیے وکیل بنایا جاتا ہے۔تو کیا وکیل کےلیے یہ جائز ہے کہ وہ علی کی غیر حاضری کی وجہ سے اس کی اسکالر شپ میں سے کٹوتی کرے اور علی کو اسکالر شپ کم کرکے دے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر اسکالرشپ عطیہ کرنے والے کو اسکول کے اس اصول کا علم ہے اور اس کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہ ہو تو ایسا کرنا درست ہے، البتہ اگر اس کے علم میں یہ بات نہ ہو یا علم ہونے کی صورت میں اسے اس پر اعتراض ہو تو پھر سؤال میں مذکورہ  کٹوتی مالی جرمانہ ہے جو ناجائز ہے اورجب پرنسپل وکیل ہے تو اس کے لیے طالب علم کی اسکالر شپ سےکٹوتی  کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61):
(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.
 (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.
والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹محرم۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے