021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کو میراث سے محروم کرنا
80930وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

     میرے والدکاانتقال ہوگیاہےاورمرحوم نے تقریباً آٹھ سوایکڑزرعی زمینیں اورکچھ مکان وغیرہ ذاتی ملکیت میں چھوڑے ہیں ،انتقال کے وقت ورثہ میں سات بیٹیاں ،چاربیٹےاوردو بیویاں تھیں (ان کے علاوہ ایک بیٹا ان کی زندگی میں ہی فوت ہوگیاتھا) وفات کے بعد ہم کچھ بہنوں نے بابامرحوم کے ترکہ یعنی ملکیت میں سے بھائیوں سے اپنے حصے کا مطالبہ کیا توا نہوں نے کہا کہ فی الحال کھاتوں یعنی رجسٹری وغیرہ کے مسائل ہیں،بعد میں دیکھیں گے پھر وہ تاخیر کرتےتھے اوراہم انتظارکرتی رہیں اوربعد میں انہوں نے کہاکہ تمہارے یعنی بہنوں کے نام کوئی کھاتے،رجسٹری،وصیت یا لکھت وغیرہ نہیں ہے اوراکثر جسٹری بیٹوں ،والد اوروالدہ وغیرہ کے نام پر ہے اورکچھ رجسٹری دوسرے لوگوں یعنی غیرلوگوں کے نام پر ہے (بعدمیں والدہ بھی فوت ہوگئی ہے ان کا ترکہ بھی موجود ہے)بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان وغیرہ میں اکثربہنوں اوربیٹوں کو والدین کی ملکیت سے حصہ نہیں دیا جاتا۔

مفتی صاحب صرف ان عجیب وغریب  اسباب کی وجہ سے ہمیں اب تک  اپنے مرحوم والدین کی ملکیت سےمیراث لینے سے مکمل طورپرمحروم رکھاگیاہے جوکہ ہمارے ساتھ بڑی ناانصافی اورظلم ہے ،وہ کافی عرصے سے ہمارے حصہ پرقابض ہیں اورہمیں اپنا حق نہیں دے رہے ہیں،لہذا اس کے متعلق تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بہنیں بھائیوں کی طرح شرعی وارث ہیں اورشرعی وارث کو میراث سے محروم نہیں کیاجاسکتا، اگرچہ رجسٹری ان کے نام پر نہ ہواوراگرچہخاندان میں اکثربہنوں اوربیٹیوں کو میراث نہ دیا جاتا ہو،جو شخص کسی وارث کو اس کی میراث سے محروم کرنے کو کوشش کرتاہے وہ درحقیقت اس کی اس وراثت والی حیثیت کو بدلتا ہے، اوراللہ تعالی کے فیصلے کو ناپسند کرتا ہے اور اسے بدلتاچاہتا ہے اور یہ  بہت بڑا جرم ہے۔

 سورۂ نساء میں میراث کے سارے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِینَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ. وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِینٌ.(۴:۱۳۔۱۴(

’’یہ اللہ کی بتائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی بتائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنہیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

حضرت سلیمان بن موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

«من قطع ميراثا فرضه الله، قطع الله ميراثه من الجنة» سنن سعيد بن منصور (١/ ١١۸)

جس نےاللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی﴿ اپنے وارث کی﴾ میراث کو کاٹ دیااللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کاٹیں گے۔ایک اورحدیث میں ہے:

 حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛جوشخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں  طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

تفصیل بالا کی روسے معلوم ہوا کہ کسی وارث مثلاً بہنوں کو میراث سے محروم رکھنا سراسر ظلم،ناانصافی، حق تلفی اور الله کے احکام سے کھلی بغاوت ہے ، جو  ناجائزاورحرام ہے،لہذا مسئولہ صورت میں میراث روکنے والے بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ بہنوں کے حصے ان کو دیدیں، ورنہ ساری عمر حرام کھانے کا وبال ان پر رہے گا اورقیامت کے دن اس کا حساب دینا پڑے گا ۔

مسئولہ صورت میں اب تک ان زرعی زمینوں اورمکانات سے جو نفع ہوا ہے اس میں بھائیوں کےلیے فقط اپنے حصّہ وراثت کے بقدر  حلال ہے ،باقی نفع خبیث ہے، جسے یا تو پھرمحتاجوں پرصدقہ کرناپڑے گایا تمام ورثہ کو ان کے حصوں کے بقدر دینا پڑے گا۔

حوالہ جات
قال الله تعالي:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْن} [النساء : 11]
وفی مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي - بيروت - (2 / 197)
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (10 / 31)
قال الطيبي رحمه الله تخصيص ذكر القيامة وقطعه ميراث الجنة للدلالة على مزيد الخيبة والخسران ووجه المناسبة أن الوارث كما انتظر فترقب وصول الميراث من مورثه في العاقبة فقطعه كذلك يخيب الله تعالى آماله عند الوصول إليها والفوز بها
وفيه ایضا:
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".( باب الغصب والعاریة، ج:1، ص:254،  ط: قدیمی كتب خانه)
عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ رواہ البیہقي في شعب الإیمان والدارقطني في المجتبی (مشکاة شریف ص ۲۵۵)
روی الامام  احمد فی مسندہ:
علی الید مااخذت حتی تودیہ،رواہ الامام [3] احمد فی مسندہ والائمۃ ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ فی سننھم و الحاکم فی صحیحہ المستدرك عن سمرۃ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
روى مسلم في صحيحه :
وفی ردالمحتار (ج/۳ص/۳۷۰)
يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا كما أفتى به في الخيرية، وما اشتراه أحدهم لنفسه يكون له ويضمن حصة شركائه من ثمنه إذا دفعه من المال المشترك، وكل ما استدانه أحدهم يطالب به وحده.وقد سئل في الخيرية من كتاب الدعوى عن إخوة أشقاء عائلتهم وكسبهم واحد وكل مفوض لأخيه جميع التصرفات ادعى أحدهم أنه اشترى بستانا لنفسه. فأجاب: إذا قامت البينة على أنه من شركة المفاوضة تقبل.
وفی رد المحتار:
الترکۃ في الاصطلاح ماترکہ المیت من الأموال صافیا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال۔ ( کتاب الفرائض، کراچي ۶/۷۵۹، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۰/۴۹۳)
وفی تکملہ فتح الملہم:
إن الأصل الأول في نظام المیراث الإسلامي: أن جمیع ماترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ ۔ (کتاب الفرائض، جمیع ماترک المیت میراث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ۲/)
وفی شرح المجلۃ:
إن أعیان المتوفي المتروکۃ عنہ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصہم۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز، مکتبۃ اتحاد دیوبند ۱/۶۱۰، رقم المادۃ: ۱۰۹۲)
وفی رد المحتار :
” أن الغلة للغاصب عندنا،لأن المنافع لاتتقوم إلابالعقدوالعاقدهوالغاصب فكان هو أولى ببدلها،ويؤمر أن يتصدق بهالاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير“( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الغصب ، جلد 9 ، صفحہ 317 ، مطبوعہ کوئٹہ )
وفی امداد الاحکام ( 3 / 602)
ایک وارث کے مشترکہ ترکہ میں تجارت کرنے کی ایک صورت کا حکم
الجواب: جس شریک نے مضاربت پر روپیہ دیا ہے نفع مقررہ اس کی ملک تو ہو گیا لیکن اس میں سے فقط اپنے حصّہ وراثت کے مطابق اس کو حلال ہے اور باقی نفع خبیث ہے۔اس لئے دوسرے ورثاء کو بقدر ان کے حصص دے دے یا محتاجوںکو دے دے۔
و فی العالمگیریۃ(ج؍۵،ص؍۱۸۴)
لو تصرف أحد الورثۃ فی الترکۃ المشترکۃ وربح فاالربح کلہٗ للمتصرف وحدہ ، کذا فی الغیاثیۃ وفیہ ایضاً بعد اسطرٍ سئل أبو بکر عن شریکین جن أحدہما وعمل الآخر بالمال حتی ربح أو وضع ، قال : الشرکۃ بینہما قائمۃ إلی أن یتم إطباق الجنون علیہ ، فإذا قضی ذلک تنفسخ الشرکۃ بینہما ، فإذا عمل بالمال بعد ذالک فالربح کلہ للعامل والوضیعۃ علیہ وہو کالغصب بمال المجنون فیطیب لہ من الربح حصۃ مالہ ولا یطیب لہ من مال المجنون فیتصدق بہ کذا فی المحیط۔ قال الشامی: وفی القھستانی ولہ أن یؤدیہ الی المالک ویحل لہ التناول لزوال الخبث۔
وفی جامع الفصولين (۲؍۱۴۵)
غاب أحد شريكي الدار فأراد الحاضر أن يكسنها رجلاً أو يؤجرها لا ينبغي أن يفعل ذلك ديانة إذ التصرف فيما بيده لو لم ينازعه أحد فلو آجر وأخذ الأجر يرد على شريكه نصيبه لو قدر وإلا تصدق به لتمكن الخبث فيه بحق شريكه فصار كغاصب آجر يتصدق الأجر أو يرده على المالك وأما نصيبه فيطيب له إذ لا خبث فيه.
فی انعام الباری (ج:۶ ص:۴۵۶)
اور یہ معاملہ میراث میں بکثرت پیش آتاہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اور وہ اپنا دکان چھوڑ گیا اب بکثرت ایسا ہوتاہے کہ اس دکان میں تصرف کرنے والا ایک ہوتاہے جو اس کو چلا تا رہتاہے اور نفع آنا رہتاہے۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ نفع کس کا ہے؟ آیا اس کے اندر سارے ورثاء شریک ہوں گے یا صرف اسی کا ہوگا جس نے اس میں عمل کرکے اس کو بڑھایا؟ عام طور سے فقہاء کا کھنا یہ ہے کہ چونکہ اس نے یہ عمل ورثاء کی اجازت کے بغیر کیا ہے لہذا یہ کسب خبیث ہے اس لئے اس کسب خبیث کو صدقہ کرنا ہوگا،بعض حضرات یہ فرماتے ہیں اور امام بخاری کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتاہے کہ جو کچھ بھی نفع ہوا وہ اصل مالک کا ہے لہذا وراثت والے مسئلے میں جو کچھ بھی نفع حاصل ہوگا اس میں تمام ورثاء شریک ہوگے (الی قولہ فی صفحۃ 456)،لیکن متاخرین حنفیہ میں سے علامہ رافعی نے یہ فرمایا کہ چونکہ خبث صاحب مال کے حق کی وجہ سے آیاہے لہذا اگر وہ صدقہ کرنےکے بجائے صاحب مال کو دیدے تب بھی صحیح ہوجائے گا،چنانچہ وراثت والے مسئلے میں اگر ایک وارث متصرف ہوگیا جبکہ حق سارے ورثاء کا تھا تو اس میں اصل حکم تو یہ ہے کہ جو کچھ ربح حاصل ہوا وہ تصدق کرے لیکن اگر تصدق نہ کرے بلکہ ورثاء کو دیدے تو اس کا ذمہ ساقط ہوجائے گا بلکہ یہ زیادہ مناسب ہے تا کہ اس سے تمام ورثاء فائدہ اٹھالیں۔
وفی امداد الاحکام( ج:۳ ص:۳۱۹-۳۲۲):
اگر ہم یہ کہیں کہ وارث کا تصرف اجنبی کے مال میں تصرف کے طرح ہےاور یہ ناجائز ہے،تو اس کا جواب بھی یہی ہوگا کہ اجنبی کے مال میں تصرف کرکے جو نفع کمایا وہ فقہاء کے ہاں واجب التصدق ہےاگرمالک معلوم ہو تومالک کو پہنچادے اور ورثاء معلوم ہےلہذا شرعی حصوں کے مطابق نفع بھی اصل مالک کے ساتھ تقسیم ہوگا۔

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

19/01/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے