021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالک کی اجازت سے کی گئی تعمیر
80947تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ہمارا ایک 200 گز کا گھر والدہ کے نام پر ہے۔ 6 سال پہلے میری شادی کے وقت میرے سسر نے اپنی بیٹی  یعنی میری بیوی   کے لیے ہمارے گھر کے اوپر  اپنے پیسوں سے 2 کمرے، 2 باتھ روم، 1 کچن اور پانی کی ٹنکی بنوائی، یہ کہہ کر کے یہ میں اپنی بیٹی کو حصے کے پیسوں سے بنوا کر دے رہا ہوں، اس پر میرے والدین راضی تھے۔ اب میرے والدین یہ گھر بیچنا چاہ رہے ہیں، میری بیوی مطالبہ کر رہی  ہے کہ جو پیسے اس کے والد نے اس کے رہنے کے لیے لگائے تھے، اس پر میری بیوی کا حق ہے، اور وہ ان پیسوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔

            کیا میرے والدین وہ پیسے دینے کے پابند ہیں؟ اگر پابند ہیں تو کس حساب سے دیں گے، مارکیٹ ویلیو کے حساب سے یا 6 سال پہلے جتنے میرے  سسر نے لگائے تھے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں جب آپ کے والدین آپ کے سسر کی طرف سے اپنی بیٹی( آپ کی بیوی) کے لیےکروائی  جانے والی تعمیر پر راضی تھے تو آپ کی بیوی کا  یہ مطالبہ درست ہے کہ اسے، اس کے لیے کی گئی تعمیر کے پیسے دئے جائیں، آپ کے والدین  پیسے دینے کے پابند ہیں۔   

            آپ کی بیوی کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے پیسے دئے جائیں گے۔قیمت کا تعین اس طرح کیا جائے کہ گھر کے  اوپر کی تعمیر کے ساتھ اور تعمیر کے بغیر  قیمت لگوائی جائے، دونوں قیمتوں میں جو فرق ہوگا،وہ اوپر کےحصے کی تعمیر کی قیمت  ہوگی، اتنی قیمت  آپ کے والدین آپ کی بیوی کو دینے کے پابند ہیں۔( تبویب حوالہ نمبر79981 )

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 747):
"(قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ وفيه بنى المتولي في عرصة الوقف إن من مال الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه، لكن للوقف ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف بخلاف أجنبي بنى في ملك غيره (قوله والنفقة دين عليها) لأنه غير مقطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها، فصار كالمأمور بقضاء الدين زيلعي، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع وفي المسألة اختلاف وتمامه في حاشية الرملي على جامع الفصولين (قوله فالعمارة له) هذا لو الآلة كلها له فلو بعضها له وبعضها لها فهي بينهما.."

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

20/محرم الحرام/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے