021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقدیر میں ہرچیز لکھی ہوئی ہونے کی صورت میں بندے کے اختیار کی شرعی حیثیت
81031ایمان وعقائداسلامی فرقوں کابیان

سوال

اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھرانسان کو دیئے گئے اختیار کی کیا حیثیت ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئلہ تقدیر شریعت کے ان دقیق مسائل میں سے ہے، جس کو سمجھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بحث کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ سننِ ترمذی کی ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم مسئلہ تقدیر میں بحث کر رہے تھے، حضور اکرم صلی اللہ کا چہرہ انور غصے سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ علیہ السلام کے دونوں رخساروں میں انار نچوڑ دیا گیا ہو اور ارشاد فرمایا کہ کیااسی چیز کا تمہیں حکم دیا گیا ہے یا یوں فرمایا کہ کیا اسی مقصد کے لیے میں تمہارے درمیان بھیجا گیاہوں؟ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئے کہ وہ تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ کرنے لگ گئے تھے، میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ (آئندہ) اس معاملے میں بحث نہ کرو۔

اسی لیے علمائے کرام نے تقدیر کے مسئلے میں غوروخوض کرنے اور اس میں بحث کرنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد اب کسی انسان کے لیے دنیا میں اس  مسئلہ کی حقیقت تک  پہنچنا ممکن نہیں۔

جہاں تک سوال کے جواب کا تعلق ہے تو یہ بات احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ کامل کی بنیاد پر مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے مستقبل میں پیش آنے والے تمام احوال کو لکھا اور آج دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تقدیر اور اس کے فیصلے کے بالکل مطابق ہو رہا ہے، کوئی ایک کام بھی اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔

 لیکن انسانوں کی تقدیر لکھنے سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ انسان مجبورِ محض اور بے اختیار ہے، بلکہ اہل السنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق انسان تمام افعال اپنے اختیار اور ارادے سے کرتا ہے، اورانسان کا اپنا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ اس کا کھانا، پینا سونا، جاگنا اور دیگر سب کام وہ اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان اور کافر سب کے نزدیک جرائم کا ارتکاب کرنے والا شخص مجرم ٹھہرتا ہے اور دنیا بھر کی عدالتیں ایسے لوگوں کو روزانہ سزائیں سناتی ہیں، کبھی کسی عدالت یا پنچائت نے بلاعذر جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو صرف اس بناء پر بری قرار نہیں دیا کہ یہ فعل تقدیر میں لکھا ہوا تھا، اس لیے یہ مجرم ایسا فعل کرنے پر مجبور تھا، لہذا یہ سزا کا حق دار نہیں۔

موجودہ زمانے میں تقدیر کی مثال یہ ہےکہ ایک ماہر ڈاکٹر نےکینسر جیسی کسی خطرناک مرض میں مبتلا شخص کے بارے میں اپنے علم کے رائے دی کہ یہ مریض مرض کی شدت کی وجہ سے اتنے  دنوں یا اتنےگھنٹوں کے اندر فوت ہو جائے گا اور پھر مریض  اس کی رائے کے مطابق واقعتاً فوت ہو گیا تو کوئی بھی شخص یہ نہیں کہتا کہ  اس کو ڈاکٹر نے مارا ہے، بلکہ سب لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے محض اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر یہ رائے دی تھی، باقی مریض اپنے مرض کی وجہ سے فوت ہے۔

البتہ اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تقدیر اور ڈاکٹر کی رائے میں یہ فرق ہے کہ ڈاکٹر کی رائے ظنی علم پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناقص ہے، اس لیے اس کی رائے کے خلاف بھی واقعہ پیش آسکتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم قطعی اور حقیقی ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے ماضی، حال  اور استقبال تینوں زمانوں کے حالات کا علم برابر ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تقدیر کے خلاف ہرگز کوئی بات واقع نہیں ہو سکتی۔ لہذا اس طرح لوحِ محفوظ میں مستقبل میں پیش آنے والے احوال لکھ دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان مجبورِ محض ہے۔

حوالہ جات
سنن الترمذي ت بشار (4/ 11، رقم الحدیث: 2133) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي البصري، قال: حدثنا صالح المري، عن هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتى احمر وجهه، حتى كأنما فقئ في وجنتيه الرمان، فقال: أبهذا أمرتم أم بهذا أرسلت إليكم؟ إنما هلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الأمر، عزمت عليكم ألا تتنازعوا فيه. وفي الباب عن عمر، وعائشة، وأنس.
سنن الترمذي ت بشار (4/ 28، رقم الحديث: 2156) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
حدثنا إبراهيم بن عبد الله بن المنذر الباهلي الصنعاني، قال: حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، قال: حدثنا حيوة بن شريح قال: حدثني أبو هانئ الخولاني، أنه سمع أبا عبد الرحمن الحبلي يقول: سمعت عبد الله بن عمرو يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قدر الله المقادير قبل أن يخلق السموات والأرض بخمسين ألف سنة. هذا حديث حسن صحيح غريب.
متن العقيدة الطحاوية (ص: 26) أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة المعروف بالطحاوي (المتوفى: 321 هـ):
 ولا يثبت قدم الإسلام إلا على ظهر التسليم والاستسلام فمن رام علم ما حظر عنه علمه ولم يقنع بالتسليم فهمه حجبه مرامه عن خالص التوحيد وصافي المعرفة وصحيح الإيمان فيتذبذب بين الكفر والإيمان والتصديق والتكذيب والإقرار والإنكار موسوسا تائها زائغا شاكا لا مؤمنا مصدقا ولا جاحدا مكذبا.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

22/ محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے