021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع استجرار
81016خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

دکاندار کو پیشگی رقم ادا کرکے سامان خریدتے رہنا پھر مہینہ یا سال ختم ہونے پر حساب وکتاب کرلینا ،جو بچ گیا ہو وہ لینا اور جو قرض ہوگیا ہے اس کو دکاندار کو دے دینا یہ کونسی بیع ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدار ضرورت پڑنے پر وقتا فوقتا دوکاندار  سے سامان خریدتا رہے ، قیمت چاہے پہلے ادا کر دے یابعد میں ادا کرے ،اس کو بیع الاستجرار کہتے ہیں ۔ فقہاء احناف نے استحسانا خرید و فروخت کی اس صورت کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ خرید و فروخت ایسی چیزوں کی ہو جن کی قیمت معین و معلوم  ہویا خرید و فروخت کےوقت قیمت کا ذکر کر دیا جائے۔      

حوالہ جات
الدر المختار(4/ 516):
ما يستجره الإنسان من البياع إذا حاسبه على أثمانها بعد استهلاكها جاز استحسانا.
قال: في الولوالجية: دفع دراهم إلى خباز فقال: اشتريت منك مائة من من خبز، وجعل يأخذ كل يوم خمسة أمناء فالبيع فاسد وما أكل فهو مكروه؛ لأنه اشترى خبزا غير مشار إليه، فكان المبيع مجهولا ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا.
قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى.
فقہ البیوع ( ج:1، ص :75):
وجرت العادۃ بان الثمن المدفوع مقدما قد یکون اقل میں قیمتہ السوقیۃ، وفی ھذہ الحالۃ ، لو امکن جعلہ سلما بشروطہ صار سلما ،وان لم یتوافر فیہ شروط السلم ، فربما یرد علیہ ان ثمن المبیع انما انتقص من اجل تعجیلہ ، کما فی اشتراک المجلات الدوریۃ  ، حیث یکون مبلغ الاشتراک السنوی اقل عادۃ من قیمتہ السوقیۃ لکل عدد ۔ ویمکن تخریج النقص فی الثمن علی اساس ان ثمن الجملۃ یکون اقل عرفا من ثمن القطاعی۔ فکذلک فی الاستجرار ، انما یقدم المشتری المبلغ لانہ یرید شراء مجموعۃ من الاشیاء ، فصار کانہ اشتری جملۃ ، فانتقص الثمن من اجل ذلک ، لا لانہ قدم قرضا ، علی ان ھذا المبلغ دفعۃ تحت الحساب ، وانہ ، ولو کان قرضا فی الاصطلاح الفقھی ، فان المقصود فی الاستجرار لیس اقراضا ، وانما مقصود المشتری تفریغ ذمتہ لئلا یحتاج الی نقد الثمن کل مرۃ.
 بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ (ج 1 ، ص  69 ):
وتبین بھذا ان الاستجرار بمبلغ مقدم جائز مثل الاستجرار بثمن مؤخر، ویکون المبلغ قرضا عند البائع الی ان یقع البیع عند الاخذ ، فتجری مقاصۃ القرض بثمن المبیع ۔ والمبلغ مضمون علی البائع .

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

24/محرم الحرام/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے