81065 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
والدہ نے پرانی گاڑی بیچ کر اس کے ساتھ مزید پیسے ملا کر چھوٹے بھائی کو دوسری گاڑی دلوادی۔ والدہ نے اپنی حیات میں ہی وہ گاڑی چھوٹے بھائی کے نام کروادی تھی۔ اب چھوٹے بھائی کی شادی کا معاملہ آیا تو بڑے بھائی جو والد کا کاروبار سنبھال رہاہے انہوں نے کاروبار میں نقصان کا کہہ کر چھوٹے بھائی کو گاڑی بیچ کر شادی کرنے کا کہا۔ چھوٹے بھائی نے گاڑی بیچ دی تاکہ شادی کا خرچہ اٹھایا جائے۔ اب بڑے بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ شادی کا خرچہ نکال کر بقایا پیسے سارے بہن بھائیوں میں تقسیم کردیے جائیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟ جبکہ والدہ نے اپنی حیات میں ہی گاڑی چھوٹے بھائی کے نام کردی تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
محض کاغذات میں نام لکھوانے کے بجائے والدہ نے حقیقتاً اگر گاڑی چھوٹے بھائی کو گفٹ کردی تھی اور قبضہ میں دے کر مالکانہ تصرف بھی دے دیا تھا، تو چھوٹا بھائی گاڑی کا مالک بن گیا ہے، گاڑی والدہ کے ورثاء میں تقسیم نہیں کی جائے گی اور بڑے بھائیوں کا پیسے تقسیم کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہوگا، اگر گفٹ کرکے باقاعدہ قبضہ نہیں دیا تو محض کاغذات نام کروانے سے گاڑی چھوٹے بھائی کی نہیں ہوگی، بلکہ والدہ کے شرعی ورثاء میں تقسیم کردی جائے گی۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222)
الهبة عقد مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك. وقال مالك: يثبت الملك فيه قبل القبض اعتبارا بالبيع، وعلى هذا الخلاف الصدقة. ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة" والمراد نفي الملك، لأن الجواز بدونه ثابت، ولأنه عقد تبرع، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به، وهو التسليم فلا يصح۔
عنایت اللہ عثمانی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
29/محرم الحرام/ 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |