021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت کے احکام
81049شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ! محترم مفتی صاحب میں تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تنخواہ کی بچت میں سے اپنے ایک دوست کے ساتھ کاروباری شراکت داری کی ہے۔ اسکا پرنٹنگ پریس کا کام ہے۔ معاہدے کی شرائط درج ذیل ہیں۔

  1. میں نے اسے 2 لاکھ روپے دئیے ہیں جن کو وہ اپنے کاروبار میں سرمائے کے طور پر استعمال کرے گا۔
  2. اس سرمائے کو قرض کے طور پر لیا جائے گا جو کہ میری طرف سے کاروبار میں استعمال ہو گا۔
  3. میری طرف سے صرف سرمایہ ہو گا جبکہ مشینری، محنت، افرادی قوت وغیرہ اسی کی ہو گی۔
  4. وہ مجھے ہرماہ منافع میں سے حصہ دے گا۔
  5. ابتدائی طور پر ماہ وار 2 ہزار روپے منافع ہوگا جبکہ جیسے جیسے کاروبار چلے گا منافع نفع یا نقصان کے حساب سے بدلتا رہے گا۔ نفع زیادہ ہونے کی صورت میں زیادہ حصہ ملے گا جبکہ نقصان کی صورت میں اسی حساب سے کم ملے گا۔
  6. اصل رقم یعنی 2 لاکھ روپیہ محفوظ رہے گا اور معاہدے کی مدت کی تکمیل کے بعد مکمل طور پر قابل واپسی ہوگا۔
  7. معاہدے کی مدت 2 سال ہو گی۔

میری رہنمائی فرمائیں کہ مندرجہ بالا شرائط اور  کاروباری شراکت شریعت کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں؟  اگر ناجائز ہے تو مہربانی فرما کر ناجائز معاملہ کی نشاندہی فرما دیں اور جائز معاملہ کی طرف رہنمائی فرمائیں۔جزاک اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

درج بالا شرائط کے ساتھ سرمایہ دینے اور کارباری شراکت داری کرنے میں چند شرعی خرابیاں ہیں مثلا: سرمایہ بطورِ قرض دینااور اس پر نفع طے کرنا، جو سود ہے، سرمایہ کا ضمان، یعنی مدت کی تکمیل پر سرمایہ لوٹانے کی شرط، نفع کی مقرر مقدار یعنی فی الحال دو ہزار وغیرہ۔ یہ سب ناجائز شرائط ہیں، لہٰذا یہ کاروبار  درست نہیں۔

اس کا جائز شرعی متبادل یہ ہوسکتا ہے کہ آپ سرمایہ کے بقدر اس کے ساتھ شرکت کا معاملہ کریں  اور اس کے بعد نفع کا تعین شرکت کے شرعی اصولوں کے مطابق کریں، مثلاً اگر دکان میں موجود سامان، پرنٹنگ پریس مشینیں وغیرہ پانچ لاکھ کی ہیں اور آپ دولاکھ روپے دینا چاہتے ہیں تو دو لاکھ روپے، جو کل سرمایہ کا 28.57% بنتا ہے ، کے حصہ کا آپ مالک بن جائیں گے اورباقی 71.43%  کا پریس والا۔ اب پریس والا کام کرے گا تو وہ شریک عامل(Working partner) ہوگا اور آپ شریک غیر عامل(Sleeping partner)

اگر کاروبار میں نقصان ہوا تو وہ ہر شریک سرمایہ کے تناسب سے برداشت کرے گا، یعنی ساڑھے اٹھائیس فیصد آپ برداشت کریں گے باقی دوسرا،  اور نفع کی شرح آپ کے لیے(شریک غیر عامل)  آپ کے سرمایہ کے تناسب سے ذیادہ نہیں رکھی جاسکتی، اس سے کم کم کوئی بھی شرح طے کی جاسکتی ہےیعنی جتنا نفع ہوگا اس میں آپ کا تناسب آپ کے سرمایہ کے تناسب سے ذیادہ نہیں ہوسکتا اس سے کم ہوسکتاہے۔

دو سال کہ بعد جب آپ شرکت کا معاملہ ختم کرنا چاہیں  تو آپ اپنا ساڑھے اٹھائیس فیصد ملکیت جتنے پیسوں میں چاہیں  اسی شریک کو بیچ دیں یا اس کے علاوہ کسی اور کو بھی بیچ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 9)
قال: "وإذا أراد الشركة بالعروض باع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال الآخر، ثم عقد الشركة" قال رضي الله عنه: "وهذه الشركة ملك" لما بينا أن العروض لا تصلح رأس مال الشركة، وتأويله إذا كان قيمة متاعهما على السواء، ولو كان بينهما تفاوت يبيع صاحب الأقل بقدر ما تثبت به الشركة.
حاشية ابن عابدين (5/ 646)
في شركة البزازية حيث قال وإن لأحدهما ألف ولآخر ألفان واشتركا واشترطا العمل على صاحب الألف والربح أنصافا جاز وكذا لو شرطا الربح والوضيعة على قدر المال والعمل من أحدهما بعينه جاز ولو شرطا العمل على صاحب الألفين والربح نصفين لم يجز الشرط والربح بينهما أثلاثا لأن ذا الألف شرط لنفسه بعض ربح مال الآخر بغير عمل ولا مال والربح إنما يستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان ا هـ ملخصا

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

29/محرم الحرام/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے