021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوبھائی ،ایک بہن اور مرحوم والدہ کی میراث کی ایک صورت کا حکم
81072میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

میرے دو بھائی اور میں ایک بہن ہوں، میرے چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی سے اپنا حصہ مانگا تو بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو 2001 میں حصہ دے دیا ،لیکن مجھے یا میری والدہ  کوحصہ  نہیں دیا ،اور حصہ نہ میرے ہاتھ میں دیا، نہ مجھے یہ بولا کہ تیرا حصہ میرے پاس رکھا ہے ،اب  مجھے یہ بتائیں کہ بھائی مجھے آج کے حساب سےدیں گے یا 2001 کے حساب سے دیں گے؟ والد صاحب کی طرف میراث میں ملی ہوئی  پراپرٹی ابھی بھی بڑے بھائی کے پاس مودجود ہے لیکن اب وہ سیل کرنا چاہ رہے ہیں۔

اب مجھے یہ بتائیں کہ  بہن کا کتنا حصہ بنتا ہے ؟بھائی کہہ رہےہیں  شریعت کے حساب سے دوں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے کل ترکہ میں اس کے تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے اور وہ سب اس میں اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے شریک ہوجاتے ہیں، اور وہ ترکہ ان سب میں شرکتِ ملک کے طور پر مشترک ہوجاتا ہے،انتقال کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو ترکہ تقسیم کر دینا چاہیے،البتہ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو جب کوئی وارث حصہ مانگے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگااور تقسیم کے لئے ترکہ میں موجود مکان کو فروخت کرناضروری نہیں ہے بلکہ موجودہ قیمت کے حساب سے بھی تقسیم درست ہے۔

مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں سونا،چاندی، نقدی، جائیداد، مکانات، کاروبار، غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے،اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے تجہیزو تکفین کے معتدل اخراجات نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمے  کوئی قرض ہو تو اسے ترکہ سے اداکیا جائے، اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیرِ وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکہ کے ایک تہائی حصے سے اداکیا جائے، باقی ماندہ ترکہ  کے چالیس  حصے کرکے مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

زوجہ

1

12.5%

پہلا بیٹا

2

35%

دوسرا بیٹا

2

35%

بیٹی

1

17.5

کل

6

100٪









نوٹ:چھوٹے بھائی کوبڑے بھائی نے اپنی طرف سے  جو حصہ دیا ہے،اگروہ   اس کے حصئہ میراث کے برابر تھا تو وہ اپنا حق وصول کرچکا ہے،اور جائیداد میں اس کا حصہ بڑے بھائی کا ہوگیا ہےاور اگر اس کے حصے میں کمی بیشی رہی ہے تو میراث والی جائیداد سے کمی پوری کی جائےگی۔ آپ (سائلہ) کا حق بدستور والد کی جائیداد میں ہے، آپ کا حصہ آج کی قیمت کے اعتبار سے آپ کو ملے گا۔

والدہ کی میراث درجِ ذیل طریقہ سے تقسیم ہوگی۔

اس کے بعد جب والدہ کا انتقال ہوا تومرحومہ کو اپنے شوہرکی میراث  سے ملنے والے حصےسمیت ذاتی  ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحومہ کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحومہ کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحومہ کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو پانچ  حصوں میں تقسیم کرکے مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

پہلا بیٹا

2

40٪

دوسرا بیٹا

2

40٪

بیٹی

1

20٪

کل

5

100٪

حوالہ جات
القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ؕ...وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ؕ....الخ
الھندیۃ: (447/6)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث"
الھندیۃ:  (448/6)
وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين"

      عدنان اختر

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

01/صفر /1445

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے