021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہمشیرہ کو دیے گئے مکان کے عوض بقیہ زمین سے شرطِ دستبرداری کا حکم
81103ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

چار ورثاء کا کہنا ہے کہ والد صاحب نے والدہ کے مشورہ سے شہر  والا ایک مکان ہمشیرہ کو ملکیتاً دیا تھا اور اس کا قبضہ بھی زندگی میں دے دیا تھا۔جبکہ دو ورثاء کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں علم نہیں کہ یہ مکان والد صاحب نے اس کو ملکیتاً دیا تھا۔البتہ قبضہ دینے کے بارے میں سب ورثاء متفق ہیں کہ قبضہ ہمشیرہ کو دے دیا تھا اور کرایہ بھی وہی لیتی تھی، نیز ان دو میں سے ایک وارث نے بھائی غلام فرید کے حوالے سے بتایا کہ والد صاحب نے ہمشیرہ کو مکان دیتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ وہ فلاں جگہ کی زرعی زمین میں سے حصہ نہیں لے گی، لیکن ان کا اپنا بیان یہی ہے کہ ہمشیرہ کو مالکانہ طور پر نہیں دیا گیا تھا، جبکہ دیگر ورثاء کا کہنا یہ ہے کہ ہمشیرہ کو دیے گئے مکان کے عوض زرعی زمین سے دستبرداری کی شرط کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تمام ورثاء کے اتفاقی بیان  سے معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب نے زندگی میں شہر والا مکان ہمشیرہ کے نام کروا کراس کا قبضہ بھی اسے دے دیا  گیا تھا اور وہی اس مکان کا کرایہ لیتی تھی۔ یہ بات ہبہ کے مکمل ہونے کی واضح علامت ہے، لہذا  ایک  یا دو ورثاء  کا یہ کہنا کہ "ہمیں اس کے بارے میں علم نہیں" شرعاً معتبر نہیں، کیونکہ اس مسئلہ میں  دراصل ہمشیرہ مدعیہ ہے اورتین بھائیوں کابیان اس کے حق میں زمین کے ملکیتاً اثبات کے لیے اور بقیہ دو بھائیوں کا بیان ملکیت کی نفی کے لیے ہے اورشرعی اعتبار سے گواہی کسی چیز کو ثابت کرنے لیے ہوتی ہے، نیزدو بھائیوں میں سے ایک کی گواہی میں تعارض ہے، وہ اس طرح کہ ایک طرف اس کہنا ہے کہ مجھے بہن کو مکان ملکیتا دینے کا علم نہیں، دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ میں نے بھائی فرید صاحب سے کئی مرتبہ سنا کہ والد صاحب نے ہمشیرہ کو بقیہ زمین سے دستبرداری کی شرط کے ساتھ مکان دیا تھا،  اس لیے ان تین بھائیوں کی بات معتبر ہو گی اور ان کے بیان کے مطابق  ہمشیرہ اس مکان کی شرعاً مالک سمجھی جائے گی۔خصوصاً جبکہ ظاہری قرائن بھی اسی بات کی تائید کر رہے ہیں۔

جہاں تک ہمشیرہ کو مکان دینے کے عوض بقیہ زمین سے دستبرداری کی شرط کا تعلق ہے تو اس میں بھی چونکہ تین بھائی اس شرط کے بارے میں عدمِ علم کا اظہار کر رہے ہیں،  ایک بھائی سرے سے مکان  ملکیتاً دینے کا انکار کررہا ہے، باقی صرف ایک بھائی  بچتا ہے جو غلام فرید کے حوالہ سے شرطِ دستبرداری کی بات کر رہا ہے، جبکہ غلام فرید اور ان کے بیٹوں سے بات ہوئی تو انہوں نے بھی اس شرط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، اس لیے شرعی اعتبار سے اس شرط کے ثبوت کا حکم لگانا مشکل ہے۔نیز اگر اس شرط کو تسلیم کر لیا جائے  تو بھی ہمشیرہ کا حصہ اپنے والد کی زمین سے ختم نہ ہو گا، کیونکہ زندگی میں کسی اولاد کو مکان وغیرہ دینا گفٹ اور ہدیہ ہے، جس کی وجہ سے وراثتی حصہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ موہوب لہ (جس کو کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دی گئی ہو) اپنے والد کی وراثت میں سے اپنے شرعی حصہ کے مطابق حق دار ہوتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں بھی ہمشیرہ اپنے والدین کی متروکہ جائیداد میں سے اپنا شرعی حصہ لینے کا حق رکھتی ہے۔

 البتہ اگر واقعتاً آپ کے والد مرحوم نے آپ کی ہمشیرہ کو مکان دیتے وقت بقیہ زمین سے دستبرداری کی شرط لگائی تھی اور ہمشیرہ نے اس کو تسلیم کیا تھا تو صورت میں اس کی حیثیت ہبہ بالشرط الفاسد کی ہو گی، کیونکہ زندگی میں کسی وارث کو جائیداد سے محروم کرنے کی شرط لگانا خلافِ شرع  ہے اور ہبہ  ان معاملات میں سے ہے جوشرطِ فاسد سے فاسد نہیں ہوتے، لہذاہبہ شرعاً درست ہو گا اور شرطِ فاسد باطل اور لغو شمار ہوگی ۔البتہ ایسی صورت میں اگر ہمشیرہ اخلاقی طور پر بقیہ زمین میں سے اپنا شرعی حصہ وصول  کرنے کی بجائے اپنے بھائیوں کو اپنا حصہ ہبہ کر دے، تاکہ سب بہن بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت کا تعلق برقرار رہے تو انشا اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کو بہت بڑا اجر ملے گا۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین تقسیم کر کے ہمشیرہ کا حصہ اس کے حوالہ کر دیا جائے اس کے بعد ہمشیرہ اپنا حصہ بھائیوں کو گفٹ کر دے تو بھائی اس کو استعمال کرنے کے مجاز ہوں گے، ورنہ زمین کی تقسیم اور قبضہ دیے بغیر صرف معاف کر دینے سے ہمیشرہ کا وراثتی حصہ ختم نہیں ہو گا۔ نیز ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہن اپنا حصہ معمولی قیمت پر بھائیوں کو بیچ دے، اس صورت میں زمین کی تقسیم اور قبضہ دینا ضروری نہیں۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 162) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 841) القبض في الهبة كالقبول في البيع بناء عليه تتم الهبة إذا قبض الموهوب له في مجلس الهبة المال الموهوب بدون أن يقول: قبلت أو اتهبت عند إيجاب الواهب أي قوله: وهبتك هذا المال.
   فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 447) دار الفكر،بيروت:
وفي الخلاصة: التي تبطل بالشروط الفاسدة ولا يصح تعليقها بالشرط ثلاثة عشر: البيع، والقسمة، والإجارة، والإجازة، والرجعة، والصلح عن مال، والإبراء عن الدين، وعزل الوكيل في رواية شرح الطحاوي، وتعليق إيجاب الاعتكاف بالشروط، والمزارعة، والمعاملة، والإقرار، والوقف في رواية. وما لا يبطل بالشروط الفاسدة ستة وعشرون: الطلاق، والخلع، ولو بغير مال، والعتق بمال وبلا مال، والرهن، والقرض، والهبة، والصدقة، والوصاية، والشركة، والمضاربة، والقضاء، والإمارة، والتحكيم بين اثنين عند محمد خلافا لأبي يوسف، والكفالة، والحوالة، والوكالة، والإقالة، والنسب، والكتابة، وإذن العبد، ودعوة الولد، والصلح عن دم العمد، والجراحة التي فيها القصاص حالا ومؤجلا، وجناية الغصب، الوديعة، والعارية إذا ضمنها رجل وشرط فيها حوالة أو كفالة، وعقد الذمة، وتعليق الرد بالعيب، وتعليق الرد بخيار الشرط، وعزل القاضي. والنكاح لا يصح تعليقه ولا إضافته لكن لا يبطل بالشرط ويبطل الشرط، وكذا الحجر على المأذون لا يبطل الحجر ويبطل الشرط، وكذا الهبة والصدقة والكفالة بالشرط المتعارف تصح هي والشرط، وبغير المتعارف يبطل وتصح الكفالة انتهى.
               تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 133) المطبعة الكبرى الأميرية –
     بولاق، القاهرة:
 (وما لا يبطل بالشرط الفاسد القرض، والهبة، والصدقة، والنكاح، والطلاق، والخلع، والعتق،    والرهن، والإيصاء، والوصية، والشركة، والمضاربة، والقضاء، والإمارة، والكفالة، والحوالة، والوكالة، والإقالة، والكتابة، وإذن العبد في التجارة ودعوة الولد، والصلح عن دم العمد، والجراحة وعقد الذمة وتعليق الرد بالعيب، أو بخيار الرؤية وعزل القاضي) هذه كلها لا تبطل بالشروط الفاسدة لما ذكرنا أن الشروط الفاسدة من باب الربا وأنه يختص بالمبادلة المالية، وهذه العقود ليست بمعاوضة مالية، فلا يؤثر فيها الشروط الفاسدة ألا ترى أنه- عليه الصلاة والسلام - «أجاز العمرى وأبطل شرط المعمر»، وكذا أبطل شرط الولاء لغير المعتق بقوله - صلى الله عليه وسلم - لعائشة - رضي الله عنها - «ابتاعي فاعتقي فإنما الولاء لمن أعتق» قاله لها حين أراد موالي بريرة أن يكون الولاء لهم بعد ما أعتقها لكن الكتابة إنما لا تفسد بالشرط المفسد إذا كان الشرط غير داخل في صلب العقد بأن كاتبه على أن لا يخرج من البلد، أو على أن لا يعامل فلانا، أو على أن يعمل في نوع من التجارة فإن الكتابة على هذا الشرط تصح ويبطل الشرط فله أن يخرج من البلد ويعمل ما شاء من أنواع التجارة مع أي شخص شاءل
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: المؤلف: علي حيدر الأفندي (المتوفى: 1353هـ) الناشر: دار الجيل:
القسم الثاني: كون الشرط المذكور مخالفا يعني غير ملائم وعلى هذا التقدير فالهبة صحيحة ولكن الشرط باطل ولا تفسد الهبة بالشرط الفاسد كما يفسد البيع به؛ لأن الشرط الفاسد بمعنى الربا والربا يجري في المعاوضات ولا يجري في الهبة التي هي من التبرعات. ولأنه - صلى الله عليه وسلم - أجاز العمرى وأبطل شرط المعمر في رجوعها بعد موت المعمر له وجعلها ميراثا لورثة المعمر له (العناية) فلذلك لو وهب أحد مالا لآخر وسلمه إياه على شرط أن لا يوهب الشخص المذكور ذلك المال لآخر ويسلمه أو أن لا يبيعه فالهبة صحيحة والشرط باطل (التنقيح، الهندية)

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

4/صفرالمظفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے