021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبرستان کے اوپر پل بنا کر گزرگاہ بنانے کا حکم
81114وقف کے مسائلقبرستان کے مسائل

سوال

ہمارے گھر کے قریب ایک قبرستان ہے، آبادی بڑھنے اور مرحومین کو دفن کرنے کے باعث گھر کے سامنے سے گزرنے کا راستہ ختم ہو گیا ہے، چونکہ ہمارا گھر بہت پرانا ہے، اس لیے ہمیں کبھی چچا کے گھر سے اور کبھی لمبا راستہ اختیار کرکے جانا پڑتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم قبرستان کی حدود میں سے گزرنے کا راستہ بنا سکتے ہیں؟ اگر اجازت نہیں تو کیا تھوڑی سی جگہ پر پلر کھڑے کر کے پل نما راستہ بنا سکتے ہیں؟

واضح رہے کہ یہ قبرستان میرے چچا کی ذاتی جگہ پر ہے، اس کو بنے ہوئے سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے،  لیکن یہ جگہ ابھی تک وقف نہیں کی گئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر یہ جگہ قبرستان کے لیے باقاعدہ وقف نہیں کی گئی تھی، جیسا کہ سوال میں تصریح ہےتو اس صورت میں آپ کے لیے اپنے چچا سے اجازت لے کر راستہ بنانا جائز ہے، بشرطیکہ راستے کی جگہ پر قبریں نہ بنی ہوں، اگر قبریں بنی ہوں تو اس صورت میں آپ قبروں کو چھوڑ کر خالی جگہ پر ستون(Piller) کھڑے کر کے پل کی صورت میں راستہ بنا  سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ یہ حکم اسی صورت میں ہے جب قبرستان کی جگہ وقف نہ ہو، اگر وقف ہو تو حکم بدل جائے گا۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (233/2) باب صلاۃ الجنائز، مطلب في دفن المیت:
"و لو بلی المیت و صار ترابًا جاز دفن غیرہ في قبرہ وزرعه و البناء علیه قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ.."
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي (1/ 246) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
ولو وضع الميت فيه لغير القبلة أو على شقه الأيسر أو جعل رأسه في موضع رجليه وأهيل عليه التراب لم ينبش، ولو سوي عليه اللبن، ولم يهل عليه التراب نزع اللبن، وروعي السنة، ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه.
الهندية،(2/362): دارالفكر، بيروت: 
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على  تلك  الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، و الأصحّ أنّه لايجوز، كذا في الغياثية."

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

4/صفرالمظفر 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے