021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکےکمرےمیں داخلےاورگفتگوپرتین طلاقوں کی تعلیق کےبعدشوہرکاانکار
81188طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اگر تو میرے کمرے میں داخل ہوئی یا پوری زندگی مجھ سے بات کی تو تمہیں طلاق ہے اور یہ الفاظ تین بار کہے،اب کچھ دن بعد بیوی کمرے میں داخل ہوکر پوچھتی ہے کہ میرا قصور کیا تھا اور بات کرتی ہے،اس صورت کا کیا حکم ہے؟

پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد شوہر اس بات سے انکار کرتا ہے اور کہتا  ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی،جبکہ بیوی کے پاس کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے،برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتاکر راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ طلاق کے معاملے میں عورت کی خود اپنی حیثیت قاضی جیسی ہے،لہذااگر وہ خود شوہر کے منہ سے طلاق کے الفاظ سنے یا کوئی معتمد شخص اسے خبر دے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دی ہے تو اس کے بعد بیوی کے لئے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش  باقی نہیں رہتی۔

لہذا مذکورہ صورت میں جب بیوی نے شوہر کو تین مرتبہ یہ جملے(اگر تو میرے کمرے میں داخل ہوئی یا پوری زندگی مجھ سے بات کی تو تمہیں طلاق ہے) بولتے ہوئے خود سنا ہے تو اس کے بعد بیوی کے شوہر کے کمرے میں داخل ہونے اور اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد اب موجودہ حالت میں ان دونوں کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں رہا۔

شوہر پر لازم ہے کہ عورت کا پیچھا چھوڑدے،لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو عورت قانونی طور پر تحفظ حاصل کرنے کے لئے عدالت سے خلع کی ڈگری بھی لے سکتی ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 355):
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ": (ج 3 / ص 285) :
"( فإن وجد الشرط فيه ) أي في الملك بأن كان النكاح قائما أو كان في العدة (انحلت اليمين ووقع الطلاق ".
"الدر المختار" (3/ 390):
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق، وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها".
"فتح القدير" (8/ 17):
" وكل ما لا يدينه القاضي إذا سمعته منه المرأة أو شهد به عندها عدل لا يسعها أن تدينه لأنها كالقاضي لا تعرف منه إلا الظاهر".
"رد المحتار"(3/ 251):
"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

09/صفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے