021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصے کی حالت میں بیوی سے کہنا:”جاؤ،چلی جاؤ،میری طرف سےآپ آزاد ہو”
81180طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

سید فرحان شکیل نے کچھ عرصہ قبل اپنی اہلیہ سے جھگڑے کے دوران یہ جملے بولے جاؤ،چلی جاؤ،میری طرف سے آپ آزاد ہو،کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟واضح رہے کہ ان الفاظ کو بولتے وقت سائل کی طلاق کی نیت نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں بولے گئے جملوں "جاؤ،چلی جاؤ "تو طلاق کے ان کنایہ الفاظ میں سے ہیں جن سے طلاق واقع ہونے کا مدار مطلقاً نیت پر ہوتا ہے،اگر طلاق کی نیت سے بولے جائیں تو طلاق واقع ہوتی ہے،ورنہ نہیں،جبکہ لفظِ "آزاد"بھی اپنی اصل وضع کے لحاظ سے کنایہ ہے اور کنایہ الفاظ کی اس قسم میں سے ہے جن میں صرف جواب بننے کا احتمال ہے جن سے قرینے(حالتِ غضب یا مذاکرہ طلاق) کی موجودگی میں بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں پہلے دو جملوں "جاؤ،چلی جاؤ" سے تو نیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،لیکن تیسرے جملے "میری طرف سے آپ آزاد ہیں "سے حالتِ غضب کے قرینے کی وجہ سے ایک بائن طلاق واقع ہوچکی ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ اب اگر میاں بیوی دوبارہ ازدواجی زندگی میں منسلک ہونا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا۔

لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب لفظ آزاد آپ کے علاقے کے عرف میں بیوی کو طلاق دینے کے لئے اس طرح خاص نہ ہو جس طرح طلاق کا لفظ کہ شوہر جب بھی بیوی کے سامنے یہ لفظ بولے تو اس سے طلاق ہی کا معنی مراد لیا جاتا ہو،بلکہ یہ لفظ طلاق کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے بھی بیوی سے بولا جاتا ہو،مثلا نکاح برقرار رکھتے ہوئے بیوی کو اعمال وافعال کی آزادی دینا وغیرہ،اگر بالفرض آپ کے علاقے کے عرف میں یہ لفظ صرف بیوی کو طلاق دینے کے لئےہی بیوی کے سامنے بولا جاتا ہوتو پھر مذکورہ صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہوگی،جس کے بعد عدت کے دوران  شوہرتجدیدِ نکاح کے بغیر  بیوی سے زبانی یا عملی طور پر رجوع کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ دونوں صورتوں میں میاں بیوی کے دوبارہ ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کی صورت میں شوہر کے پاس مزید صرف دوطلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 298):
"فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة
قال ابن عابدین رحمہ اللہ :"(قوله: فنحو اخرجي واذهبي وقومي) أي من هذا المكان لينقطع الشر فيكون ردا أو لأنه طلقها فيكون جوابا رحمتي.....
 (قوله لا يحتمل السب والرد) أي بل معناه الجواب فقط ح أي جواب طلب الطلاق أي التطليق فتح
(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب......
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

09/صفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے