021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعلیق طلاق کا حکم(اگر میں نے آج کے بعد جھوٹ بولا تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہوگی)
81169طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

ایک آدمی نے کہا کہ اگر میں نے آج کے بعد جھوٹ بولا تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہوگی۔اس کے بعد اس نے متعدد بار جھوٹ بولا ہے۔ اسی طرح اس نے بولا کہ اگر میں آج کے بعد زنا کروں تو میری بیوی مجھ پر میری ماں کی طرح ہوگی۔ اس کے بعد بھی اس نے یہ غلط کام کیا ہے۔ کیا اس پر اس کی بیوی طلاق ہوچکی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائے تو شرط پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔  شرط نہ پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لہذا صورتِ مسئولہ کے مطابق جھوٹ بولنے کی صورت میں شرط پائے جانے پر اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ اس صورت میں اس کوعدت میں اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا اور آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا اختیار حاصل رہے گا۔ 

مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ " اگر میں آج کے بعد زنا کروں تو میری بیوی مجھ پر میری ماں کی طرح ہوگی "  طلاق اور ظہار، دونوں کا احتمال رکھتا ہے؛  لہذا مذکورہ جملہ کہنے والے کی نیت کے مطابق اس کا حکم لگے گا۔ اگر اس نے طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی اور نکاح ٹوٹ جائے گا اور  دوبارہ ایک ساتھ رہنے کے لیے نیا   نکاح کرنا ضروری ہے، اور اگر ظہار کی نیت کی ہو، یعنی حلال کو حرام کرنا مقصود ہو، تو ظہار ہوجائے گا، اب دوبارہ ایک ساتھ رہنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا ضروری ہوگا، اور کفارہ یہ ہے کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے، اگربڑھاپے، ضعف، یا بیماری کے باعث  مسلسل دوماہ روزے  رکھنے کی طاقت نہ ہو  تو ساٹھ مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہوگا، روزہ رکھنے  کی طاقت ہو تو روزے ہی رکھنے ہوں گے، کفارہ ادا کرنےکےبعد بیوی کےقریب جانا درست ہوگا۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"جو کہا تھا تجھ کو رکھوں تو اپنی ماں کو رکھوں یہ صیغہ تعلیق کا ہے اور یہ عبارت طلاق اور ظہار دونوں کو محتمل ہے اور تعلیق طلاق اور ظہار دونوں کی جائز ہے۔ پس اگر اس عبارت سے نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہوگئی اور چوں کہ کنایہ ہے اس لیے طلاق بائن واقع ہوگئی اور اگر نیت ظہار کی ہے تو ظہار ہوگیا اور کفارہ واجب ہوگا۔"

حوالہ جات
{الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ (2) وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (3) فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [المجادلة: 2 - 4]
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 122)
إذا قال لها أنت طالق إن دخل فلان الدار أنه يقع الطلاق إذا وجد الشرط في أي وقت وجد ولا يتقيد بالمجلس؛ لأن ذلك تعليق الطلاق بالشرط، والتعليق لا يتقيد بالمجلس؛ لأن معناه إيقاع الطلاق في زمان ما بعد الشرط فيقف الوقوع على وقت وجود الشرط ففي أي وقت وجد يقع
الفتاوى الهندية (9/ 213)
الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة : إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق وكذا إذا قال : إذا أو متى وسواء خص مصرا أو قبيلة أو وقتا أو لم يخص وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج كالإضافة إلى الملك فإن قال لأجنبية : إن دخلت الدار فأنت طالق ثم نكحها فدخلت الدار لم تطلق كذا في الكافي
الفتاوى الهندية (10/ 469)
وحكم الظهار حرمة الوطء والدواعي إلى غاية الكفارة كذا في فتاوى قاضي خان .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 231)
أنه لو قال لامرأته: أنت علي كظهر أمي كان مظاهرا سواء نوى الظهار أو لا نية له أصلا؛ لأن هذا صريح في الظهار إذ هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السماع بحيث يسبق إلى إفهام السامعين فكان صريحا لا يفتقر إلى النية كصريح الطلاق في قوله: أنت طالق، وكذا إذا نوى به الكرامة أو المنزلة أو الطلاق أو تحريم اليمين لا يكون إلا ظهارا؛ لأن هذا اللفظ صريح في الظهار فإذا نوى به غيره فقد أراد صرف اللفظ عما وضع له إلى غيره فلا ينصرف إليه، كما إذا قال لامرأته: أنت طالق ونوى به الطلاق عن الوثاق أو الطلاق عن العمل أنه لا ينصرف إليه ويقع الطلاق لما قلنا كذا هذا،............., ولو قال: أنت علي كأمي أو مثل أمي يرجع إلى نيته فإن نوى به الظهار كان مظاهرا، وإن نوى به الكرامة كان كرامة، وإن نوى به الطلاق كان طلاقا، وإن نوى به اليمين كان إيلاء؛ لأن اللفظ يحتمل كل ذلك إذ هو تشبيه المرأة بالأم فيحتمل التشبيه في الكرامة والمنزلة أي أنت علي في الكرامة والمنزلة كأمي ويحتمل التشبيه في الحرمة ثم يحتمل ذلك حرمة الظهار ويحتمل حرمة الطلاق وحرمة اليمين فأي ذلك نوى فقد نوى ما يحتمله لفظه فيكون على ما نوى.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/صفر الخیر / 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے