021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حکومت کی طرف سے بیوہ کودیاگیامحافظہ کس کی ملکیت ہے؟
52486میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

1.      میں بیوہ ہوں، میرے شوہر محمد سلیم کو دو سال پہلے کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا،میری عمر ۳۵ سال ہے اور میرے دو بچے ہیں،بیٹا ۷ سال جبکہ بیٹی ۴ سال کی ہے،میرا ایک غیر شادی شدہ دیور ہے،میری ساس اور دیور میرے ساتھ رہتے ہیں، سسر کا انتقال محمد سلیم کی موت سے پہلےہو چکا ہے،جس گھر میں ہم رہتے ہیں یہ میرے سسر کا تھا جبکہ ان کے انتقال کے بعد میری ساس کے نام کر دیا گیا، میرے بھائی کراچی میں رہتے ہیں، میری ساس کا کہنا ہے کہ میں بچوں سمیت اپنے بھائی کے پاس کراچی میں رہوں،پوچھنا یہ ہے کہ کیا میرا شوہر کے گھر میں رہنا شرعاً جائز ہے ،جبکہ وہاں دیور بھی ہے اور شریعت کے مطابق پردے کا انتظام بھی نہیں؟

2.      حکومت کی طرف سے مجھے جو محافظہ دیا گیا ہے اور میرے نام پر چیک جاری ہوا ہے،کیا اس میں میرے سسرال والوں کا بھی حق ہے؟

3.      مجھے میرا حق مہر بھی نہیں دیا گیا تھا،لہذا حکومت کی طرف سے جو محافظہ ملا ہے،کیا یہ محافظہ میں حق مہر کی نیت سے لے سکتی ہوں؟ (نوٹ: سسر کا گھر تقریباً 120 سے 150 مربع گز پر دو منزلہ تعمیر شدہ ہے، سسر کے ورثہ میں ایک زوجہ(میری ساس)،ایک بیٹی اور دو بیٹے (ایک میرے شوہر اور ایک دیور)تھے)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1.      سسر کے انتقال کے بعد وہ گھر سسر کے شرعی ورثہ کی ملکیت ہے ، صرف ساس کے نام کر دینے سے ساس کی ملکیت نہیں ہوگا، نیز آپ کے شوہر کے انتقال کے بعد اس گھر میں ان کے حصے کو ان کے ورثہ میں تقسیم کیا جاۓ گا، لہذا اس پوری تقسیم کے بعد اس گھر کی ملکیت میں آپ کا حصہ (4.375) فیصد، جبکہ آپ کے دو بچوں کا مجموعی حصہ (29.17) فیصد ہے، لہذا آپ اور آپ کے بچوں کا اس گھرمیں شرعی حق ہے اور کوئی بھی آپ کو وہاں سے نہیں نکال سکتا، مدت پوری کرنے کے بعد آپ جہاں رہنا چاہیں شریعت نے وہاں رہنے کی اجازت دی ہے ، چاہیں تو اسی گھر میں رہیں یا بھائی کے ساتھ کراچی میں رہیں، لیکن آپ کو وہاں رہناچاہیے جہاں آپ کی جان و مال و عزت کی حفاظت اور معاش کا انتظام آسانی سے ہو سکے،اس گھر میں رہتے ہوۓ بھی آپ شرعی پردہ کر سکتی ہیں، اس کے لیے گھر بدلنا ضروری نہیں،اس گھر میں رہتے ہوۓ آپ کیسے پردہ کر یں ؟ اس کے لیے آپ مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کی کتاب "شر عی پردہ " کا مطالعہ کرلیں، یہ ایک مختصر رسالہ ہے جو شہر میں موجود دینی کتب کی دوکانوں پر دستیاب ہے، نیز جامعۃ الرشید کے قریب جو دینی کتب کی دوکانیں ہیں وہاں بھی دستیاب ہے۔

2.      چونکہ یہ محافظہ بیوہ کے نام پر جاری ہوا ہے اس لیے یہ اس کا حق ہے ، سسرال والوں کو اس میں حصہ نہیں ملے گا اور نہ ہی اس میں میراث کے احکام جاری ہوں گے ، کیونکہ میراث کے احکام اس مال میں جاری ہوتے ہیں جو انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں ہو ، جبکہ یہ محافظہ میت کی ملکیت میں انتقال کے وقت نہیں تھا۔

3.      مرحوم (محمد سلیم نے جو کچھ نقدی، زیور، جائیداد یا چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہو اس میں سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کےمتوسط اخراجات نکالے جائیں گے ،اگر کسی نے اپنی طرف سے تبرعاادا کئے ہوں ، تو پھر وہ اخراجات منہا کرنے کی ضرورت نہیں ، پھر اگرمرحوم کے ذمے کچھ قرض ہو، تو وہ ادا کیا جائے گا، بیوی کا مہر بھی ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تھا، لہذا وہ بھی قرض ہے وہ ادا کیا جاۓ ، پھر اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو ، تو ایک تہائی تک اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ ان تمام حقوق کے ادا کرنےکے بعد جو تر کہ بچے اس کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔

اوپر مذکور ترتیب کے مطابق اگر مر حوم کے ترکے سے بیوہ کا مہر ادا ہو سکتا ہے تو وہ ادا کیا جائے اورا گراتناتر کہ نہ ہو تو بیوہ کو چاہیےکہ مہر کی رقم اپنے شوہر کو معاف کر دیں، محافظہ کی رقم لے کرا گر آپ مہر کی رقم چھوڑ دیں تو یہ بھی جائز ہے بلکہ زیادہ مناسب ہے۔

حوالہ جات
و في الدر المنتقى شرح ملتقى الابحر (كتاب الفرائض)
"(ثم تقضى ديونهااي التي لها مطالب من جهة العباد من جميع ما بقى بعد التجهيزان وفي به الافان كان صاحب الدين واحد فله الباقى و ما بقى له ان شاء عفا او تركه لدار الجزاء"
و في البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 25 / ص 17)
"المراد من التركة ما تركه الميت حاليا عن تعلق حق الغير بعينه ، وإن كان حق الغير متعلقا به كالرهن والعبد الجاني والمشتري قبل القبض فإن صاحبه يقدم على التجهيز كما في حال حياته فحاصله أنه معتبر بحال حياته فإن المرء يقدم نفسه في حال حياته فيما يحتاج إليه من النفقة والكسوة والسكنى على
أصحاب الدين ما لم يتعلق حق الغير بعين ماله فكذا بعد وفاته يقدم تجهيزه من غير تقتير ولا تبذير."فقط

عمران مجید

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/ رجب 1435ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے