021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ممتدۃ الطہر کی عدت کا حکم
81144طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

ایک عورت جس کو خاوند نے 6 ماہ پہلے تین طلاقیں دی تھیں، اس کی ماہواری متعین نہیں ہے، بلکہ کبھی زیادہ ایام ہوجاتی ہے اور کبھی بالکل بند ہوجاتی ہے۔اس عورت کی رخصتی کو 8 سال ہوگئے ہیں۔ تین سال قبل اس عورت کی ماہواری ایک سال کے لیے منقطع ہوگئی تھی، پھر ایک سال بعد بغیر کسی دوائی و علاج کے ماہواری جاری ہوگئی۔ دو سال تک یہ ماہواری ہر مہینہ آتی رہی، لیکن دو سال بعد ماہواری پھر سے بغیر حمل وغیرہ کے منقطع ہوگئی اور تقریباً 4 ماہ کے بعد پھر سے بغیر کسی دوائی وغیرہ کے ماہواری شروع ہوگئی۔ چند ماہ تک یہ ماہواری صحیح طریقہ  کے ساتھ ہر مہینہ جاری رہی، لیکن اب سات مہینے ہوگئے یعنی طلاق کے ایک مہینہ قبل سے پھر ماہواری بغیر کسی حمل وغیرہ کے منقطع ہوگئی ہے۔ اس عورت کی عمر تقریباً 32 سال ہےاور اس شوہر سے اس عورت کے پانچ بچے بھی ہیں۔ اب اس کی عدت کا کیا حکم ہے؟ جس طرح ماہواری کا سلسلہ چل رہا ہے، ہوسکتا ہے سابقہ ترتیب کی طرح اس عورت کو ایک حیض ایک سال کے بعد آئے، اس حساب سے تین سال تک عدت گزارنا دشوار ہے، کیونکہ مذکورہ مطلقہ نہ اپنی ضروریات پوری کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی خواہشات پر قابو پاسکتی ہے۔

اس مجبوری کی خاطر اس عورت کو امام مالکؒ کے مذہب کے مطابق فتوی دینے کی گنجائش ہےیا نہیں؟ مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ اس طرح عورت پہلے نو مہینے گزارے گی، اگر اس دوران حیض جاری نہ ہوا تو پھر وہ تین مہینے اس عورت کی طرح گزارے گی جو حیض سے مایوس ہوچکی ہو۔( ماخوذ از بدائع الصنائع)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حنفیہؒ کے نزدیک ممتدۃ الطہر کی عدت حیض سے ہی پوری ہوگی تا آنکہ سن ایاس تک پہنچے (جو کہ پچپن سال ہے)   اگر سن ایاس سے قبل(ممتدۃ الطہر کو) عدت کی نوبت آجائےتو بذریعہ علاج حیض جاری کرکے تین حیض  پوری کرے، اگر کسی علاج سے حیض جاری نہ ہو تو بوقتِ ضرورت کسی مالکی قاضی سے ایک سال کی عدت کا فیصلہ کرایا جائے، اگر مالکی قاضی میسر نہ ہوا اور ضرورتِ شدیدہ ہو تو بدونِ قضاء بھی ایک سال کی عدت کا فتوی دیا جاسکتا ہے۔(احسن الفتاوی:5/ 435)کذا فی امداد الفتاوی:2/490)  وفتاوی دارالعلوم دیوبند:10/307)و کفایت المفتی:6/417)۔ واللہ اعلم۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 296)
قلت: ونظير هذه المسألة عدة ممتدة الطهر التي بلغت برؤية الدم ثلاثة أيام ثم امتد طهرها فإنها تبقى في العدة إلى أن تحيض ثلاث حيض. وعند مالك تنقضي عدتها بتسعة أشهر. وقد قال في البزازية: الفتوى في زماننا على قول مالك. وقال الزاهدي كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة. واعترضه في النهر وغيره بأنه لا داعي إلى الإفتاء بمذهب الغير لإمكان الترافع إلى مالكي يحكم بمذهبه، وعلى ذلك مشى ابن وهبان في منظومته هناك، لكن قدمنا أن الكلام عند تحقق الضرورة حيث لم يوجد مالكي يحكم به
النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 476)
التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.
قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة وأنت خبير بأنه لا داعي إلى الإفتاء بقول نعتقد أنه خطأ يحتمل الصواب مع إمكان الترافع إلى مالكي يحكم به.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 142)
إذا رأت ثلاثة أيام وانقطع ومضى سنة أو أكثر ثم طلقت فعدتها بالحيض إلى أن تبلغ إلى حد الإياس وهو خمس وخمسون سنة في المختار كذا في البزازية ومن الغريب ما في البزازية قال العلامة والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة اهـ.
ولو قضى قاض بانقضاء عدة الممتد طهرها بعد مضي تسعة أشهر نفذ كما في جامع الفصولين ونقل في المجمع أن مالكا يقول إن عدتها تنقضي بمضي حول وفي شرح المنظومة أن عدة الممتد طهرها تنقضي بتسعة أشهر كما في الذخيرة معزيا إلى حيض منهاج الشريعة، ونقل مثله عن ابن عمر قال وهذه المسألة يجب حفظها؛ لأنها كثيرة الوقوع وذكر الزاهدي وقد كان بعض أصحابنا يفتون بقول مالك في هذه المسألة للضرورة خصوصا الإمام والدي اهـ.
الفتاوى الهندية (24/ 358)
 ولو قضى بمضي عدة ممتدة الطهر بالأشهر حكي في حيض منهاج الشريعة عن مالك رحمه الله تعالى أنه قال في المرأة إذا طلقها زوجها ومضى عليها ستة أشهر ولم تر فيها الدم : يحكم بإياسها حتى تنقضي عدتها بعد ذلك بثلاثة أشهر وروي عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما مثل ذلك فعلى هذا ممتدة الطهر قبل أن تبلغ حد الإياس وهو خمس وخمسون سنة إذا انقطع الدم على الخمسين أو انقطع قبل ذلك بسنة أو بسنتين فيما اختاره جدي شيخ الإسلام برهان الدين إذا طلقها زوجها ، ومضى عليها ستة أشهر ثم اعتدت بثلاثة أشهر وقضى بذلك قاض ينبغي أن ينفذ ؛ لأنه مجتهد فيه ، وهذا مما يجب حفظه فإنها كثيرة الوقوع.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/صفر الخیر / 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے