021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وساوس کا حکم
81134جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

مجھ سے کلمات کفر صادر ہوئے تھے، جس کے بعد میں نے توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کیا الحمداللہ! ۔مجھے پورا یقین ہے اللہ غفور الرحیم ہے اس نے میری توبہ کو قبول کر لیا، لیکن توبہ کرنے کے بعد بھی مجھے ایسا دل میں خیال آتا ہے کہ ہو سکتاہے  میری توبہ قبول نہ ہوئی ہو۔آیا  میں دائرہ اسلام میں داخل ہو کر مسلمان ہو گئی ہوں  یا خدانخواستہ ابھی تک کافر و مرتد ہی ہوں ۔لیکن میں فورا ہی اس خیال کو جھٹک کر یہ سوچتی کہ اللہ غفورالرحیم ہے، اس نے میری توبہ کو قبول کر لیا ہے اور میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی ہوں۔  پھر تھوڑی دیر یونہی ان خیالات کو جھٹکتی رہتی ہوں ۔ مجھے بتایئے کیا محض یہ خیال آنے سے کہ پتا نہیں میں دائرہ اسلام میں داخل ہو کر مسلمان ہو گئی یا نہیں ،کیا صرف ایسا خیال آنے سے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں یا نہیں؟اور اگر ہو جاتےہیں  تو مجھے بتائیے میں کیا کروں، میں الجھ کر رہ گئی ہوں۔ مجھے میرا ایمان ہر وقت خطرے میں لگتا ہے، اس سے میری شادی شدہ زندگی پر برے اثرات پڑ سکتےہیں۔ میں پریشان ہو گئی ہوں، میری عبادات بھی متاثر ہو رہی ہیں نیز کیا تجدیدِ ایمان کے بعد کوئی اور گناہ جیسے گانے سننے  سے  بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتےہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تجدید ِایمان کے بعد آپ مسلمان ہو گئی ہیں، کلمہ پڑھ لینے سے انسان اسلام میں داخل ہوجاتا ہے، تجدیدِ ایمان کے بعد اس طرح کے وساوس اور خیالات آنا شیطان کی طرف ہیں۔

            دل میں غیر اختیاری طور پر  اس طرح کے خیالات اور وسوسوں کے آنےسے انسان دینِ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کے وساوس آنے پر انہیں  دل سے برا سمجھنا  اور جھڑکنا  ایمان کی علامت ہے،  لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیں۔

            ان وسوسوں  اور برے خیالات کے علاج کے لیے درج ذیل  نسخہ نبوی  پر عمل کیا جائے:

(1)أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا  ورد کریں۔ (3)  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم(سورة الحديد:3)(4) نیز رَبِّ أَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَأَعُوْذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَّحْضُرُوْنِ(سورة المؤمنون:97,98)کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

            موسیقی ،گانا بجانا اور سننا شریعت میں حرام ہے‏۔ قرآن كریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ. (سوره لقمان: 6)

            گانے سننا اگرچہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے تاہم اس کی وجہ سے کفر کا حکم عائد نہ ہوگا، اس سے انسان اسلام سے خارج نہیں ہوتا، البتہ  گانے سننے کا گناہ ہوگا۔

حوالہ جات
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 136):
"( «في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لايليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟ ... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحاً على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لاتليق به تعالى كان مؤمناً حقاً، وموقناً صدقاً فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوباً يقبل الوسوسة، ولايردها".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 349)
«استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

11/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے