021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترک مال کا حکم
81153شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میرا سوال میرے ابو اور چچا کے مالی معاملات کے بارے میں ہے۔ میر ے ابو اور چچا اکٹھے ایک گھر میں رہ رہے تھے۔ ابو متحدہ عرب امارات میں کام کر رہے تھے اور چچا سکول ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ زمین وغیرہ کے پیمائش کا بھی کام کر تے تھے ۔ابو جو کچھ کما تے چچا کو بھیج دیتے- دونوں کے کمائے ہوئے پیسوں سے چچا گھرکا، بچوں کےتعلیم و تربیت کا خرچہ پورا کرتے۔ جو کچھ بچ جاتا وہ انویسٹ کرتے  تھے۔ اس دوران اچھی خاصی  بچت جمع ہو گئی۔ دونوں کے کچھ بچوں کی شادیاں بھی اسی پیسوں میں سے ہو گئیں۔ 2008 میں ہم الگ گھر شفٹ ہوگئے لیکن تب بھی ابو چچا کو ہی پیسے بھیجتے اور مالی معاملات وہ چلاتے۔ 2012 میں ابو امارات سے واپس آئے جبکہ چچا پہلے ہی ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ اس دوران ہم بھائیوں میں سے کچھ نے کماناشروع کیا اور اپنے گھر کے مالی اخراجات خود اٹھانےلگے۔ لیکن وہ جو ابو اور چچا کی کمائی ہوئی رقم تھی وہ چچا نے منافع پر لوگوں کو دی ہوئی تھی اور کچھ پلاٹس خریدے تھے۔ ان کی ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے۔ اب جب ابو چچا سے وہ رقم تقسیم کرنے کا کہتے ہیں تو وہ بولتے ہیں کہ پہلے آپ کے بچوں کی کمائی ہوئی رقم کو بھی اس میں شامل کرو پھر میں تقسیم کرنے کو تیار ہوں۔ یا د رہے جس رقم میں سےابو حصہ مانگ رہے ہیں اُس میں چچا کے بچوں کی کمائی کی ہوئی  کوئی رقم شامل نہیں ہے۔

۱۔ اوپر تفصیل کو دیکھتے ہوئے کیا چچا کا یہ مطالبہ یا شرط شرعی لحاظ سے صحیح ہےکہ بچوں کی آمدن کو اس میں شامل کرو پھر تقسیم کرتے ہیں؟

۲۔ دو بھائیوں کے بیچ اگر اکٹھے کمائی ہوئی رقم کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی اور اتنے میں ایک بھائی کے بچے کمانے لگ جاتے ہیں اور سارے خرچے وہ خود اٹھا رہے ہو تو کیا بھائیوں کے بیچ تقسیم میں ان بچوں کی آمدن شامل کرنا شرعی لحاظ سےضروری ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں آپ کے والد  اور چچا کی کمائی مشترک ہے،چچا اور آپ کے والد کی جمع شدہ کمائی  جس سے چچا نے پلاٹ خرید ے ہیں یا لوگوں کو دی ہوئی ہے، وہ    مال ِمشترک ہے ، چونکہ چچا اور آپ کے والد کے حصے  بھی  متعین  نہیں   ہیں یعنی یہ معلوم نہیں  کہ کس کا کتنا حصہ ہے، تو ایسی صورت میں تمام موجودمال چچا اور آپ کے والد    میں  برابر برابر  تقسیم ہوگا۔

ہر انسان اپنی کمائی کا خود مالک ہے۔آپ لوگوں نے جو کمایا ہے، وہ آپ لوگوں کی ملکیت ہے۔

مشترک مال کی تقسیم کے لیے بچوں کی کمائی کو شامل کرنے کا مطالبہ درست نہیں۔لہٰذا آپ کے چچا کا آپ کے والد کو یہ کہنا کہ اپنے بچوں کی کمائی کو شامل کرو، پھر تقسیم ہوگی، صحیح نہیں۔آپ کے کمائے ہوئے پیسوں کو چچا اور والد کے پیسوں  میں شامل کرنا شرعا ًضروری نہیں ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (4/ 518):
(وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما) نصفين إن لم يعلم ما لكل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 325):
قوله ( وما حصلاه معاً، الخ ) يعني ثم خلطاه وباعه فيقسم الثمن على كيل أو وزن ما لكل منهما وإن لم يكن وزنيا ولا كيليا قسم على قيمة ما كان لكل منهما وإن لم يعرف مقدار ما كان لكل منهما صدق كل واحد منهما إلى النصف لأنهما استويا في الاكتساب وكأن المكتسب في أيديهما.
فالظاهر أنه بينهما نصفان والظاهر يشهد له في ذلك فيقبل قوله ولا يصدق على الزيادة على النصف إلا ببينة لأنه يدعي خلاف الظاهر.
(وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما) نصفين إن لم يعلم ما لكل .....مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.فأجاب بأنه بينهما سوية.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 44):
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

12/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے