021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلافت کا مطلب اور کیا آج دنیا میں خلافت قائم ہوسکتی ہے؟
81152حکومت امارت اور سیاستدارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل

سوال

(1خلافت کیا ہے؟

(2)کیا آج بھی خلافت قائم ہو سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ پہلے سوال کا جواب:

  سیاست وحکومت کے اسلامی تصور کی بنیاد اور اصل الاصول یہ ہے کہ اس کائنات پر اصل حاکمیت اللہ تبارک وتعالی کو حاصل ہے، اور دنیا کے حکمران اللہ تعالی کی اس حاکمیت کے تابع بن کر ہی حکومت کرسکتے ہیں۔

 اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے خلافت کا مفہوم آسان اور مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جو صفتِ حاکمیت ہے اس کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ  کا کوئی نائب ہو۔ اللہ جل جلالہ اپنی صفتِ حاکمیت کو اس دنیا میں نافذ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو بھیجتے رہے، اور ان سب کے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، اور ان پر رسالت ونبوت کا دروازہ بند کردیا، چنانچہ ختمِ نبوت کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں داخل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے اس دنیا میں اللہ جل جلالہ کی صفتِ حاکمیت کو نافذ کرنے کے لیے مسلمان جس شخصیت کا انتخاب کرلیں اس کو "خلیفہ"، "امیر" اور "امام"  کہتے ہیں۔ اور اس شخصیت کے فرضِ منصبی یعنی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ حاکمیت کو اس کے دئیے ہوئے قانون (قرآن وسنت) کی روشنی میں نافذ کرنے کو "خلافت" اور "امامتِ کبریٰ"  کہا جاتا ہے۔

قرآنِ کریم میں "خلافت" کا مادہ  متعدد مقامات پر حکومت کے لیے استعمال ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "خلافت" اللہ تعالی کے قانون کو زمین پر نافذ کرنے والے نظامِ حکومت کا عنوان ہے۔ چند آیاتِ کریمہ مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

(1) {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً } [البقرة: 30]

ترجمہ: "اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔"

(2) {يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ} [ص: 26]

ترجمہ: "اے داود! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرو، اور نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادے گی۔"

(3){وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ } [الأنعام: 165]

ترجمہ: "اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں سے درجات میں بلندی عطا کی، تاکہ اس نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں، ان میں تمہیں آزمائے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمہارا رب جلد سزا دینے والا ہے اور یہ (بھی) حقیقت ہے کہ وہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔"

بخاری شریف میں روایت ہے:

"عن فرات القزاز قال سمعت أبا حازم قال قاعدت أبا هريرة خمس سنين فسمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء كلما هلك نبي خلفه نبي وإنه لا نبي بعدي  وسيكون خلفاء فيكثرون قالوا فما تأمرنا قال: فوا ببيعة الأول فالأول، أعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم." (صحيح البخاري: 4/ 169)

ترجمہ: "حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہا، پس میں نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیاءِ کرام فرماتے تھے (حکمران خود انبیاء ہوتے تھے یا ان کے حکم سے حکمران کا تقرر ہوتا تھا) جب بھی ایک نبی فوت ہوتے تو ان کے بعد دوسرے نبی آجاتے اور بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، البتہ "خلفاء" ہوں گے اور زیادہ ہوں گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ (جب خلفاء زیادہ ہوں گے تو ایسی صورت میں) آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں (یعنی ہم ان میں سے کس کے ہاتھ پر بیعت کرلیا کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی خلافت سب سے پہلے منعقد ہو اس کی بیعت کرنا اور اسے پورا کرنا، یکے بعد دیگرے آنے والے خلفاء کا حق ادا کرنا، (اور ان کے خلاف فساد پھیلانے سے باز رہنا) کیونکہ اللہ جل جلالہ خود ان سے پوچھیں گے ان معاملات کے بارے میں جو للہ تعالی نے ان کے ذمے لگائے ہیں۔"

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال اور ان کی سیاسی قیادت کرنے والی شخصیات کو "خلفاء" کا لقب دیا، اس طرح سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "خلافت" کو امتِ مسلمہ کے سیاسی نظام کے طور پر بیان فرمایا ، جس کی بنیاد پر  اسلام کے سیاسی نظام کا عنوان "خلافت"  ٹھہرا۔

خلافت کی تعریف، علمائے اسلام کی نظر میں

ذیل میں علمائے اسلام کے حوالے سے "خلافت" اور "خلیفہ"  کی چند تعریفات نقل کی جاتی ہیں:

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی "ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء" میں فرماتے ہیں:

"مسئله در تعریفِ خلافت: هی الریاسة العامة فی التصدی لإقامة الدین بإحیاء العلوم الدینیة وإقامة أرکان الإسلام والقیام بالجهاد وما یتعلق به من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة وإعطاءهم من الفیئ والقیام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهی عن المنکر نیابةً عن النبی صلی الله علیه وسلم. " (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء:1/13)

ترجمہ: "خلافت وہ ریاستِ عامہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہونے کی حیثیت سے علوم دینیہ کو زندہ رکھنے کے ذریعے،  ارکانِ اسلام کو قائم کرنے کے ذریعے،  جہاد اور متعلقاتِ جہاد (جیسے لشکروں کو ترتیب دینا، مجاہدین کو وظائف دینا، مالِ غنیمت کو ان پر تقسیم کرنا) کو بجالانے کے ذریعے،  عہدۂ قضاء کے فرائض انجام دینے،  حدود کو قائم کرنے،  مظالم کو دور کرنے اور لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دینے اور برے کاموں سے منع کرنے کے ذریعے دین کو قائم و نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئے۔"

اس تعریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لفظِ "خلافت" شرعی اصطلاحی معنوں میں صرف اس حکومت کے لیے خاص ہے جو دین کو قائم ونافذ کرنے کے لیے وجود میں آئے۔ اور جو حکومت ایسی نہ ہو اس پر اگرچہ عربی لغت کے اعتبار سے خلافت کے لفظ کا اطلاق کردیا جاتا ہے، لیکن شرعی اصطلاح کے اعتبار سے وہ خلافت نہیں کہلاتی۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ تعالیٰ نے "مقدمۂ ابنِ خلدون" میں حکومت کی تین قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔  (1) ملک طبیعی (2) ملک سیاسی (3) خلافت۔ اور اس تقسیم میں انہوں نے لفظ "خلافت" کا اطلاق صرف اس حکومت پر فرمایا ہے جس کی بنیاد دین وشریعت پر ہو، باقی دو اقسام کے لیے انہوں نے ملک یا ملوکیت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ ان تینوں اقسامِ حکومت کی تعریفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"الملك الطبیعی" هو حمل الکافة علی مقتضی الغرض والشهوة، و "(الملك) السیاسی" هو حمل الکافة علی مقتضی النظر العقلی فی جلب المصالح الدنیویة ودفع المضار، و "الخلافة" هی حمل الکافة علی مقتضی النظر الشرعی فی مصالحهم الأخرویة والدنیویة الراجعة إلیها….. وإذ قد بينا حقيقة هذا المنصب، وأنه نيابة عن صاحب الشريعة في حفظ الدين، وسياسة الدنيا به، تسمى "خلافة" و "إمامة"، والقائم به "خليفة" و "إماماً".  (مقدمة ابن خلدون:1/66۔365)

ترجمہ: " (حکومت کی پہلی قسم) "طبیعی حکومت" لوگوں کو شہوت اور اغراضِ نفسانیہ کے تقاضوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔ (دوسری قسم) " سیاسی حکومت" تمام لوگوں کو دنیوی مصلحتیں حاصل کرنے اور دنیوی نقصانات سے بچنے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔ (تیسری قسم) "خلافت" لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانے کا نام ہے جس سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں اور  دنیوی مصلحتیں بھی پوری ہوں، جن کا نتیجہ بھی آخر کار آخرت ہی کی بہتری ہوتا ہے۔۔۔۔ جب ہم نے اس منصب کی حقیقت اور یہ بات بیان کردی کہ یہ منصب دین کی حفاظت اور دنیوی امور کے لیے تدابیر اختیار کرنے میں صاحبِ شریعت کی نیابت ہے تو اس کو "خلافت" اور "امامت" کہاجاتا ہے، اور جو شخص اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے متعین ہو اس کو "خلیفہ"اور "امام" کہا جاتا ہے۔"

خلافت کے لیے دوسرا لفظ "امامت" اور "خلیفہ" کے لیے دوسرا لفظ "امام" یا "امیر" بھی  استعمال ہوتا ہے، علامہ ابنِ خلدونؒ کی مذکورہ بالا عبارت میں اس کی صراحت ہے، نیز  علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ"روضۃ الطالبین" میں فرماتے ہیں:

"يجوز أن يقال للإمام الخليفة و الإمام و أمير المؤمنين." (روضة الطالبين: 10/ 49)

ترجمہ:  "امام کو "خلیفہ"، "امام" اور "امیر المؤمنین" تینوں القاب سے یاد کیا جاسکتا ہے۔"

استاذ محمد نجیب المطیعی "تکملۃ المجموع شرح المہذب للنوویؒ" میں فرماتے ہیں:

"المراد بالإمام الرئيس الأعلى للدولة، والإمامة والخلافة وإمارة المؤمنين مترادفة، والمراد بها الرياسة العامة في شئون الدين والدنيا. " (تکملة المجموع شرح المهذب: 19/ 191)

ترجمہ:  "امام سے مراد حکومت کا سربراہِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ اور امامت، خلافت اور إمارة  المومنین  تینوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ ان سے مراد دینی اور دنیوی معاملات میں عمومی سربراہی ہوتی ہے۔"

خلاصۂ کلام:

الغرض "خلافت" اس نظامِ حکومت کا نام ہے جو اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نظامِ شریعت کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے  قائم کیا جائے۔ چنانچہ صرف اسی طرح کے نظامِ حکومت کے سربراہ کو (حقیقی معنی میں) "خلیفہ"، "امام" اور "امیر" کہاجاسکتا ہے۔  یہ بات من جملہ اور دلائل کے خود قرآنِ کریم سے بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں حکومت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اس بات کو انتہائی وضاحت سے ذکر فرمادیا ہے کہ اسلامی حکومت کا مقصد "دینِ الٰہی" کا قیام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ } [الحج: 41]

ترجمہ: " یہ (جن کی صفات اس سے پہلے کی آیات میں بیان کی گئیں) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔"

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے حکومت کے مقاصد میں نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، اچھائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا بیان فرمایا ہے۔ جس میں شریعت کے تمام احکام کو نافذ کرنا خود بخود داخل ہوگیا۔

      خلافت اور دیگر حکومتی نظاموں میں فرق:

اس آیتِ کریمہ اور خلافت کی مذکورہ بالاتعریفات سے خلافت اور دیگر حکومتی نظاموں کے درمیان بنیادی فرق بھی بالکل واضح ہوکر سامنے آگیا، اور وہ یہ ہے کہ "خلافت" کا مقصد دنیوی مصالح کے ساتھ ساتھ دینی مصالح کا حصول بھی ہوتا ہے۔ خلیفہ کا مقصد لوگوں کو نماز، روزہ، زکوۃ اور دیگر احکامِ شرعیہ کا پابند بنانا، ان کو بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا بھی ہوتا ہے۔ جبکہ دیگر حکومتی نظاموں کا مقصد صرف اور صرف دنیوی مصالح کی پاسداری ہوتی ہے۔

      کیا خلیفہ کا ایک ہونا ضروری ہے یا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں؟

شریعت کا اصل حکم یہ ہے کہ پوری امتِ مسلمہ کا ایک خلیفہ ہو، امتِ مسلمہ کے اہلِ حل وعقد کسی ایسے شخص کو امام بنائیں جس کے اندر امامت اور خلافت کی شرائط موجود ہوں اور تمام اہلِ اسلام اس کی بیعت واطاعت کریں۔ ایک وقت میں ایک سے زائد خلفاء کا ہونا جائز نہیں، خواہ عالمِ اسلام کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہوجائے۔ یہی جمہور علمائے اسلام کا موقف ہے۔

       اس موقف کے چند دلائل اور حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

اس موقف کی ایک دلیل صحیحین کی وہ  حدیث ہے  جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل اور امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ و السلام کی سیاسی قیادت میں فرق بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیائے کرام علیہم السلام خود فرماتے تھے، ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی آتے، اور میرے بعد چونکہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے اس امت میں سیاسی قیادت خلفاء کریں گے اور وہ خلفاء زیادہ ہوں گے، لیکن تم اسی کی بیعت کرو جس کی خلافت سب سے پہلے منعقد ہو۔

 یہ حدیث ترجمہ سمیت صفحہ نمبر 2 پر گزر چکی ہے۔  

شارحِ صحیح مسلم علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے  ہیں:

"ومعنى هذا الحديث إذا بويع لخليفة بعد خليفة فبيعة الأول صحيحة يجب الوفاء بها، وبيعة الثاني باطلة، يحرم الوفاء بها، ويحرم عليه طلبها، وسواء عقدوا للثاني عالمين بعقد الأول (أو) جاهلين، وسواء كانا في بلدين أو بلد، أو أحدهما في بلد الإمام المنفصل والآخر في غيره، هذا هو الصواب الذي عليه أصحابنا وجماهير العلماء، وقيل: تكون لمن عقدت له في بلد الإمام، وقیل: یقرع بینهم، وهذان فاسدان. واتفق العلماء علی أنه لایجوز أن یعقد لخلیفتین في  عصر واحد سواء اتسعت دار الإسلام أم لا.  وقال إمام الحرمين في كتابه "الإرشاد": قال أصحابنا: لا يجوز عقدها لشخصين، قال: وعندي أنه لا يجوز عقدها لإثنين في صقع واحد، وهذا مجمع عليه، قال: فإن بعد ما بين الإمامين وتخللت بينهما شسوع فللاحتمال فيه مجال، قال: وهو خارج من القواطع، وحكى المازري هذا القول عن بعض المتأخرين من أهل الأصل وأراد به إمام الحرمين، وهو قول فاسد مخالف لما عليه السلف والخلف ولظواهر إطلاق الأحاديث، والله أعلم." (شرح النووي على مسلم: 12/ 231)

یہ عبارت اگرچہ قدرے طویل ہے، لیکن زیرِ بحث مسئلہ اس میں بڑی وضاحت  کے ساتھ آیا ہے، اس لیے ذیل میں ہم اس پوری عبارت کا ترجمہ کرتے ہیں:

ترجمہ: ا"س حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک خلیفہ کی بیعت منعقد ہونے کے بعد کسی دوسرے شخص کی بیعت کی جائے تو پہلے خلیفہ کی بیعت صحیح ہے، اسے پورا کرنا واجب ہے، اور دوسرے کی بیعت باطل ہے، دوسرے کی بیعت کو پورا کرنا اور اس کا بیعت طلب کرنا حرام ہے، چاہے (دوسرے خلیفہ کی بیعت کرنے والوں نے) پہلے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کے علم کے باوجود اس دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کی ہو یا اس سے ناواقف ہونے کی حالت میں بیعت کی ہو، اور  چاہے یہ دونوں ایک ہی شہر میں ہوں یا الگ الگ شہروں میں ہوں، یا ان میں سے ایک مرنے والے خلیفہ کے شہر میں اور دوسرا کسی اور شہر میں (ان سب صورتوں میں دوسرے شخص کے ہاتھ پر کی جانے والی بیعت باطل ہے)۔ یہی وہ درست بات ہے جس پر جمہور علمائے کرام قائم ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ایسی صورت میں اس شخص کی امامت منعقد ہوگی جو مرنے والے امام کے شہر میں ہو، جبکہ دوسرے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی، لیکن یہ دونوں قول غلط ہیں۔ اس بات پر علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ ایک ہی زمانے میں دو آدمیوں کو خلیفہ مقرر کرنا درست نہیں، چاہے مملکتِ اسلامیہ اور عالمِ اسلام بہت پھیل چکا ہو یا اتنا زیادہ نہ پھیلا ہو۔ (یعنی اسلامی دنیا جتنی بھی بڑی ہوجائے خلیفہ ایک ہی ہوگا)۔ البتہ امام الحرمین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الارشاد" میں لکھا ہے کہ: ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ (ایک زمانے میں) دو آدمیوں کو خلیفہ بنانا درست نہیں۔ پھر امام الحرمین اپنی رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: میرے نزدیک ایک ہی علاقے میں دو آدمیوں کو خلیفہ بنانا درست نہیں، اور اس بات پر اجماع ہے۔ لیکن اگر دو آدمیوں کو امام بنایا جائے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوں، دونوں کے درمیان طویل فاصلے ہوں تو ایسی صورت میں دونوں کو امام بنائے جانے کی گنجائش ہے۔ امام الحرمین فرماتے ہیں کہ یہ بات (یعنی امام کا ایک ہونا) قطعیات میں سے نہیں ہے۔ امام مازری نے بھی یہ قول بعض متاخرین اصولیین سے نقل کیا ہے اور ان کی مراد (ان بعض متاخرین اصولیین سے) امام الحرمین ہے۔ (علامہ نووی فرماتے ہیں) لیکن یہ قول فاسد ہے، یہ سلف اور خلف کے موقف اور احادیث کے الفاظ کے اطلاق کے مخالف ہے۔"

شارحِ صحیح بخاری علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ  نے بھی اس حدیث کی تشریح میں علامہ نووی رحمہ اللہ کا کلام نقل کیا ہے، اس لیے ذیل میں ہم صرف ان کی عبارت نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:

"والمعنى أنه إذا بويع الخليفة بعد خليفة فبيعة الأول صحيحة يجب الوفاء بها وبيعة الثاني باطلة. قال النووي سواء عقدوا للثاني عالمين بعقد الأول أم لا، سواء كانوا في بلد واحد أو أكثر، سواء كانوا في بلد الإمام المنفصل أم لا هذا هو الصواب الذي عليه الجمهور، وقيل: تكون لمن عقدت له في بلد الإمام دون غيره، وقيل: يقرع بينهما، قال: وهما قولان فاسدان."

                                                                                                                                                                   (فتح الباري :6/ 497)

علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی "عمدۃ القاری" میں وہی بات لکھی ہے جو علامہ نوویؒ نے بیان فرمائی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

"قوله "بيعة الأول فالأول" معناه إذا بويع لخليفة بعد خليفة فبيعة الأول صحيحة يجب الوفاء بها وبيعة الثاني باطلة يحرم الوفاء بها سواء عقدوا للثاني عالمين بعقد الأول أو جاهلين، وسواء كانا في بلدين أو أكثر وسواء كان أحدهما في بلد الإمام المنفصل أم لا." (عمدة القاري: 2/ 454)

شارحِ مشکاۃ علامہ طیبی اپنی  شرحِ مشکاۃ میں فرماتے ہیں:

"والفاء في قوله: (فالأول) للتعقيب، والتكرير للاستمرار، ولم يرد به في زمان واحد بل الحكم هذا عند تجدد كل زمان وتجدد بيعة." (الكاشف عن حقائق السنن: 8/ 2564)

ترجمہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول "فالأول" میں یہ فاء تعقیب کے لیے ہے، اور تکرار (یعنی "الأول" کو دوہرانا) استمرار کے لیے ہے۔ اور اس سے ایک ہی زمانے میں مختلف آدمیوں سے پے درپے بیعت کرنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ یہ حکم ہر نئے زمانے اور ہر نئی بیعت کے لیے ہے۔" (یعنی جب ایک امام کا انتقال ہو اور اس کا زمانہ ختم ہو تو اس وقت حکم یہ ہے کہ جس شخص کے ہاتھ پر مسلمان سب سے پہلے بیعت کرلیں، بس اسی کی بیعت منعقد ہوگی، اس کے بعد کسی اور کی بیعت منعقد نہیں ہوگی)۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی شرحِ مشکاۃ "مرقاۃ المفاتیح" میں اس حدیث کی تشریح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے۔ ان کی عبارت درجِ ذیل ہے:

"قال الطيبي: "الفاء للتعقيب والتكرير للاستمرار، ولم يرد به في زمان واحد بل الحكم هذا عند تجدد كل زمان وتجدد بيعة." (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :11/ 313)

علامہ ماوردی رحمہ اللہ تعالیٰ "الاحکام السلطانیۃ" میں فرماتے ہیں:

"وإِذَا عُقِدَتْ الْإِمَامَةُ لِإِمَامَيْنِ فِي بَلَدَيْنِ لَمْ تَنْعَقِدْ إمَامَتُهُمَا ، لِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ لِلْأُمَّةِ إمَامَانِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ وَإِنْ شَذَّ قَوْمٌ فَجَوَّزُوهُ. " ( الأحكام السلطانية :1/ 10)

ترجمہ: "یعنی اگر دو مختلف ملکوں میں دو الگ الگ اماموں کو امام بنالیا جائے تو ان کی امامت منعقد نہیں ہوگی، کیونکہ یہ بات جائز نہیں ہے کہ امت کے ایک ہی وقت میں دو امام ہوں، اگرچہ کچھ لوگوں نے شذوذ اختیار کرکے اسے جائز بھی کہا ہے۔"

علامہ ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ تعالیٰ "مراتب الاجماع" میں فرماتے ہیں:

"واتفقوا أنه لا يجوز أن يكون على المسلمين في وقت واحد في جميع الدنيا إمامان لا متفقان ولا مفترقان ولا في مكانين ولا في مكان واحد. " (مراتب الإجماع، ص: 124)

ترجمہ: "اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ جائز نہیں کہ مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں پوری دنیا میں دو امام ہوں، خواہ وہ دونوں متفق ہوں یا ان کا آپس میں اختلاف ہو، چاہے دو مختلف علاقوں میں ہوں یا دونوں ایک ہی علاقے میں ہوں۔"

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ "شرح العقائد" میں  فرماتے ہیں:

"فإن قیل: لم لایجوز الاکتفاء بذی شوکة فی کل ناحیة، ومن أین یجب نصب من له الریاسة العامة؟ قلنا: لأنه یؤدی إلی منازعات ومخاصمات مفضیة إلی اختلال أمر الدین و الدنیا، کما نشاهد فی زماننا هذا." (شرح العقائد:355)

ترجمہ: "اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہر علاقے میں ایک رعب ودبدبے والے شخص پر اکتفاء کیوں جائز نہیں ہے (یعنی کہ ہر علاقے میں ایک بارعب شخص کی حکومت ہو)، اور ایسے امام کو مقرر کرنے کی کیا دلیل ہے جس کی   سلطنت اور ریاست (پوری اسلامی دنیا) پر عام اور شامل ہو؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ (پوری زمین پر عام سلطنت رکھنے والے امام کا تقرر اس لیے واجب ہے کہ) ہر علاقے میں الگ الگ شخص کی حکومت قائم ہونا باہمی اختلافات اور جھگڑوں کا سبب بنتا ہے جو دین اور دنیا دونوں کے معاملات کو بگاڑنے کا ذریعہ ہے، جیساکہ ہم اپنے اس زمانے میں اس کا مشاہدہ کررہے ہیں۔"

"الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ" میں لکھا ہے:

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجوز كون إمامين في العالم في وقت واحد ، ولا يجوز إلا إمام واحد . واستدلوا بخبر : إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما . وقوله تعالى : { وأطيعوا الله ورسوله ولا تنازعوا فتفشلوا }، ووجه الاستدلال : أن الله سبحانه وتعالى حرم على المسلمين التفرق والتنازع ، وإذا كان إمامان فقد حصل التفرق المحرم ، فوجد التنازع ووقعت المعصية لله تعالى." (الموسوعة الفقهية الكويتية:6/ 226)

ترجمہ:  "جمہور فقہائے کرام کا مسلک یہ ہے کہ دنیا کے اندر ایک وقت میں مسلمانوں کے دو اماموں کا ہونا جائز نہیں ہے۔ صرف ایک امام کا ہونا درست ہے۔ "

    حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ  "معارف القرآن" میں فرماتے ہیں:

     "خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نیابتِ زمین اور نظمِ حکومت کے لیے انتخاب کا طریقہ مشروع ہوگیا، یہ امت جسے خلافت کے لیے منتخب کردے وہ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے نظامِ عالم کا واحد ذمہ دار ہوگا، اور خلیفہ سارے عالم کا ایک ہی ہوسکتا ہے۔ خلفائے راشدین کے آخری عہد تک یہ سلسلہ صحیح اصول پر چلتا رہا، اور اسی لئے ان کے فیصلے صرف دینی اور ہنگامی فیصلوں کی حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ ایک محکم دستاویز اور ایک درجہ میں امت کے لیے حجت مانے جاتے ہیں، کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین۔ میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو۔

خلافتِ راشدہ کے بعد کچھ طوائف الملوکی کا آغاز ہوا، مختلف خطوں میں مختلف امیر بنائے گئے، ان میں سے کوئی بھی خلیفہ کہلانے کا مستحق نہیں، ہاں کسی ملک یا قوم کا امیرِ خاص کہا جاسکتا ہے، اور جب پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع کسی ایک فرد پر متعذر ہوگیا، اور ہر ملک، ہر قوم کا علیحدہ علیحدہ امیر بنانے کی رسم چل گئی تو مسلمانوں نے اس کا تقرر اسی اسلامی نظریہ کے تحت جاری رکھا کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت جس امیر کو منتخب کرے وہ ہی اس ملک کا امیر اور اولو الامر کہلائے گا، قرآن مجید کے ارشاد "وأمرهم شوریٰ بینهم" کے عموم سے اس پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔

اسمبلیاں اسی طرزِ عمل کا ایک نمونہ ہیں، فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد وخود مختار ہیں، محض اپنی رائے سے جو چاہیں اچھا یا برا قانون بناسکتے ہیں، اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول وقانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے ذریعے ان کو ملا ہے، اس اسمبلی یا مجلسِ شوریٰ کی ممبری کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں، اور جس شخص کو یہ منتخب کریں اس کے لئے بھی کچھ حدود وقیود ہیں، پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن وسنت کے بیان کردہ اصول کے دائرہ میں ہوسکتی ہے، اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں۔" (معارف القرآن: 1/186۔185)

خلاصہ یہ کہ شریعت کا اصل حکم یہی ہے کہ اسلامی دنیا چاہے جتنی بھی وسیع ہو، ایک زمانے میں ایک سے زیادہ خلیفہ اور امیر کا ہونا جائز نہیں۔ اور یہی جمہور علمائے اسلام کا موقف ہے۔

      امام الحرمینؒ اور بعض دیگر حضرات کی رائے:

البتہ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ اگر اسلامی دنیا اتنی وسیع ہو کہ ایک خلیفہ کے لیے انتظام سنبھالنا مشکل ہو تو ایسی صورت میں ایک سے زیادہ خلیفہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ قول امام الحرمین علامہ عبد الملک الجوینی(کما مر فی العبارات المذکورة) کا ہے۔ علامہ عبد العزیز فرھاروی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی "النبراس" میں اپنا رجحان اس طرف ظاہر فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:

"ولایخفی أن نصب من یتملک بلاد الإسلام کلها مشکل، وکنت أتعجب منه حتی رأیت فی المواقف (لعضد الدین عبد الرحمن بن أحمد الإیجی):  "أنه لایجوز العقد لإمامین فی أرض متضایقة الأقطار، وأما فی أرض وسیعة بحیث لایسع الواحد تدبیرها فهو محل الاجتهاد، المواقف:3/591 "، انتهیٰ. وأظن أن الجواز أرجح. " (النبراس:513،ط:المکتبة الرشیدیة، کوئته)

ترجمہ: "یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ایسا خلیفہ مقرر کرنا جو تمام بلادِ اسلامیہ پر حکومت کرے، مشکل ہے۔ مجھے اس بات پہ تعجب ہوتا تھا یہاں تک کہ میں نے "المواقف" (نامی کتاب) میں یہ بات دیکھی کہ: "قریب قریب ممالک میں دو اماموں کو مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ جہاں تک ایسے وسیع علاقے کا تعلق ہے جس کا انتظام ایک شخص نہ سنبھال سکے تو اس میں دو اماموں کا تقرر محلِ اجتہاد ہے۔" (علامہ فرھاروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں) میرا گمان یہ ہے کہ جواز کا قول راجح ہے۔"

    اس دوسری  رائے کا جائزہ:

لیکن یہ رائے جمہور کے خلاف ہے۔ شریعت کا اصل حکم وہی ہے جو حضرات جمہور کا قول ہے۔ نیز اس رائے کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں۔ رہا دو اماموں کے تقرر کے جواز کے لیے اسلامی دنیا کی وسعت کو مدار بنانا تو یہ اس لیے درست نہیں کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں اسلامی سلطنت تقریباً ایک تہائی دنیا تک پہنچ چکی تھی، اور بعد میں آدھی دنیا اس کے زیرِ اثر آگئی تھی، اس کے باوجود ایک امام کے تحت کام چلتا رہا۔ یہ کہنا کہ جب علاقہ وسیع ہوگا تو ایک خلیفہ کے لیے انتظام سنبھالنا مشکل ہوگا، قابلِ التفات نہیں، کیونکہ خلیفہ تو بلاشبہہ ایک ہوگا، لیکن اس کے ماتحت ہر علاقے کا الگ الگ حاکم ہوگا جو وہاں کا انتظام سنبھالے گا اور وہاں شریعت کے نفاذ اور امن وامان کی صورتِ حال کو یقینی بنائے گا۔ پھر آج کے دور میں جبکہ مشرق ومغرب کے فاصلے سمٹ گئے ہیں اور چند منٹ میں بات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے، اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ بڑے علاقے کا انتظام ایک خلیفہ کے لیے سنبھالنا مشکل ہوگا۔ آج بھی ریاستہائے متحدہ امریکہ (جس کے اندر 52 سٹیٹ ہیں) کا ایک ہی صدر منتخب ہوتا ہے اور اسلامی دنیا 57 ممالک پر مشتمل ہے۔ اگر امریکہ کا ایک صدر ہوسکتا ہے تو مسلم دنیا کا ایک خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا؟

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اسلامی دنیا میں الگ الگ سلطنتیں اس بنیاد پر ہرگز نہیں بنیں کہ رقبہ وسیع تھا جس کا انتظام ایک خلیفہ کے لیے سنبھالنا مشکل تھا، بلکہ اس کی وجہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات تھے۔ لہٰذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جن اختلافات کی بنیاد پر اسلامی دنیا کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی ہے، ان اختلافات کو دور کرنے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی جائے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اگرچہ یہ مقصد حاصل ہونا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے، لیکن کم از کم پر امن طریقے سے اپنے اپنے دائرۂ کار کے اندر کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ اصلاً یہ ذمہ داری مسلم حکمرانوں اور اربابِ اقتدار پر عائد ہوتی ہے، جو ان کے ذمے امت کا ایک قرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی اس ذمہ داری کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

     عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال:

اب سوال یہ ہے کہ آج کے دور میں عالمِ اسلام 57 ممالک میں تقسیم ہے، اور ہر ملک کا الگ الگ حکمران ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ان حکومتوں کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ نہ ہونے کی وجہ سے گناہ لازم آئے گا یا نہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پوری دنیا میں ایک خلیفہ مقرر کرنے کے لیے مسلمانوں کا اتفاق واتحاد ضروری ہے جو اس دور میں محال جیسا ہے، لہٰذا جب تک امت میں افتراق وانتشار موجود ہے اور مختلف ممالک کی جغرافیائی حدود مقرر ہونے کی وجہ سے ہر ملک میں الگ الگ حاکم موجود ہے تو ان حالات میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جس ملک میں جو حاکم مقرر ہو، جائز امور میں اس کی اطاعت واجب ہے تاکہ امت مزید انتشار سے بچ جائے۔ البتہ ان حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ متفق ہوکر کسی دیندار حکمران کو اپنا متفقہ خلیفہ منتخب کریں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک اور علاقے میں الگ الگ حکام کا موجود ہونا جائز ہے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں شریعت کے قوانین نافذ کریں اور امن وامان بحال رکھیں۔ مگر ان سب حکام کے اوپر ایک "خلیفۃ المسلمین" ہونا بھی ضروری ہے جو مسلمانوں کی متفقہ قیادت کا فریضہ انجام دے۔ اور اس "خلیفۃ المسلمین" کو مقرر کرنا چونکہ پوری امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص اپنے دائرۂ کار میں جائز امور میں حکمرانوں کی اطاعت کرتے ہوئے فتنہ وفساد پھیلائے بغیر متفقہ "خلیفۃ المسلمین" کی تشکیل اور اس نظام کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا رہے تو ان شاء اللہ وہ عند اللہ بری الذمہ ہوگا۔

عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ  نے "اسلام اور سیاسی نظریات، ص:246" پر کلام فرمایا ہے۔ حضرت دامت برکاتہم کا یہ کلام ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:

"ان اقوال کے باوجود جمہور علماء کا موقف یہی ہے کہ ایک وقت میں امام متعدد نہیں ہوسکتے۔ لیکن غور کرنے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس عالمگیر دعوت کا داعی ہے، اور اس میں جس طرح پوری امتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کا اہتمام فرمایا گیا ہے، اس کا تقاضا وہی ہے جو جمہور فقہاء کا موقف ہے، یعنی پورے عالمِ اسلام کا ایک ہی خلیفہ یا امام ہو۔ اور جہاں تک ممالک کے درمیان فاصلوں کا تعلق ہے، خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی اسلام تقریباً ایک تہائی دنیا تک پہنچ چکا تھا، اور بعد میں آدھی دنیا اس کے زیرِ اثر آگئی تھی، اس کے باوجود ایک امام کے تحت کام چلتا رہا اور ہمارے دور میں تو مواصلات کی ترقی نے اس کو کوئی قابلِ لحاظ مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ اس لیے ایک مثالی اسلامی ریاست کی اصل کوشش یہی ہونی چاہیے کہ پوری دنیا میں ایک ہی امام ہو۔ لیکن موجودہ حالات میں جہاں عالمِ اسلام پچاس سے زیادہ حکومتوں میں منقسم ہے، عملی طور پر ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ممالک کے حکمران متفق ہوں، ورنہ مسلمان ملکوں کے درمیان جنگ کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا جو یقیناً زیادہ بڑی برائی ہے۔ اس لیے مجبوری کی حالت میں ان حکومتوں کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے، ورنہ شدید خلفشار لازم آئے گا۔ ماضی میں بھی کئی کئی حکومتیں رہی ہیں، اور علماءِ امت نے ان کے احکام کو نافذ العمل سمجھا ہے۔ لہٰذا اس حد تک دوسرا قول اختیار کرنا ایک مجبوری ہے کہ ان کے احکام کو نافذ قرار دیا جائے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔"

(2)۔۔۔ دوسرے سوال کا جواب:

جی ہاں، آج بھی خلافت یعنی پوری دنیا میں مسلمانوں کی ایک حکومت قائم ہونے کا امکان فی نفسہ موجود ہے، مگر یہ انفرادی طور پر کسی فرد کی قدرت میں نہیں، بلکہ اس کے لیے سب مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد شرط ہے؛ کیونکہ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہر زمانے میں خلافت کا قیام اور مسلمانوں کے لیے امام کی تقرری واجب اور فرضِ کفایہ ہے۔ فرضِ کفایہ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اگر امت میں سے بعض افراد اس فرض کو ادا کریں تو پوری امت کا ذمہ فارغ ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بھی اس فرض کو ادا نہ کرے تو پوری امت بحیثیتِ مجموعی اس کوتاہی کی ذمہ دار ٹھہرتی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر (موجودہ حکمرانوں کی جائز اطاعت کرتے ہوئے اور فتنہ فساد سے پھیلائے بغیر) اپنی قدرت و اختیار کی حد تک اس کے لیے کوشش کرنا لازم ہے۔

خلافت کا قیام کس کی ذمہ داری ہے؟

اس فرضِ کفایہ کے مخاطب کون ہیں؟ آیا ہر مسلم فرد اس کا مخاطب ہے یا کچھ مخصوص لوگ اس کے مخاطب ہیں؟ اور اگر دنیا میں "خلافت" کا نظام قائم نہ ہو تو اس کے ذمہ دار اور گناہ گار کون ہوں گے؟

اس بارے میں علامہ ماوردی رحمہ اللہ تعالی سیاست کے موضوع پر اپنی مایہ ناز کتاب "الاحکام السلطانیۃ" میں فرماتے ہیں کہ  اگر کوئی بھی "خلافت" کو قائم نہ کرے تو دو قسم کے لوگ اس کے ذمے دار اور گناہ گار ہوں گے۔ ایک اربابِ اختیار یعنی وہ لوگ جو کسی اہل شخص کو "خلیفہ" بناسکتے ہوں۔ دوسرے اہلِ امامت یعنی وہ لوگ جو  خلافت وامامت کے منصب کو سنبھال سکتے ہوں۔ ان دو قسم کے لوگوں کے علاوہ دیگر لوگوں پر قیامِ خلافت میں تاخیر کی وجہ سے کوئی حرج اور گناہ لازم نہیں آئے گا۔

علامہ ماوردی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت درجِ ذیل ہے:

"( فصل ) فإذا ثبت وجوب الإمامة ففرضها على الكفاية كالجهاد وطلب العلم، فإذا قام بها من هو من أهلها سقط فرضها على الكفاية، وإن لم يقم بها أحد خرج من الناس فريقان: أحدهما أهل الاختيار حتى يختاروا إماما للأمة. والثاني أهل الإمامة حتى ينتصب أحدهم للإمامة، وليس على من عدا هذين الفريقين من الأمة في تأخير الإمامة حرج ولا مأثم، وإذا تميز هذان الفريقان من الأمة في فرض الإمامة وجب أن يعتبر كل فريق منهما بالشروط المعتبرة فيه." (الأحكام السلطانية :1/ 4)

ترجمہ: "جب امامت کا واجب ہونا ثابت ہوگیا تو (اس کے بعد یہ سمجھنا چاہیے) کہ اس کی فرضیت علی الکفایہ ہے، جیسے کہ جہاد اور طلبِ علم (کی فرضیت علی الکفایہ ہے)، لہٰذا جب خلافت کے اہل لوگ اس کو قائم کرلیں تو یہ فرضِ کفایہ ادا ہوجائے گا۔ اور اگر امت میں سے کوئی بھی اس کو قائم نہ کرے تو لوگوں میں سے دو فریق (اس فرضِ کفایہ کے قائم نہ ہونے کے ذمہ دار اور گناہ گار نکلیں گے) : ایک اربابِ اختیار (وہ گناہ گار ہوں گے) یہاں تک کہ وہ امت کے لیے کسی شخص کو امام بنائیں۔ اور دوسرے امامت کے اہل لوگ (وہ گناہ گار ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کوئی امامت کے لیے کھڑا ہوجائے۔ ان دو قسم کے لوگوں کے علاوہ امت میں سے کسی پر امامت کے انعقاد میں تاخیر کی وجہ سے نہ کوئی گناہ لازم آئے گا اور نہ حرج۔"

موجودہ دور میں یہ بات واضح ہے کہ "خلافت" کا نظام دنیا میں قائم نہیں ہے۔ علامہ ماوردی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کی روشنی میں اس فریضہ کو پورا نہ کرنے کا ذمہ دار مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں مسلمانوں کی زمامِ اقتدار تھامی ہوئی ہے، لیکن اس فریضہ کو قائم کرنے میں سستی اور کاہلی برت رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا جو عام طبقہ ہے ان کا کیا حکم ہے اور ان حالات میں ان کی کیا ذمہ داری ہے؟ اس حوالے سے ہم ذیل میں اپنے دو بزرگوں کے ارشادات نقل کرکے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے "امداد الفتاوی" میں، اسی طرح حضرت کے ملفوظات کے مختلف مجموعوں میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ امام مقرر کرنا واجب ہے، لیکن واجبات کے وجوب کے لیے قدرت شرط ہے، اور اس وقت (حضرت رحمہ اللہ کے دور میں) قدرت موجود نہیں ہے، اس لیے اس وقت اگرچہ خلیفہ اور خلافت کا نظام نہیں ہے، لیکن گناہ لازم نہیں آئے گا۔ یہ رائے حضرت کی مندرجہ ذیل کتب میں نقل کی گئی ہے:

"اسلام اور سیاست، ص:142" میں حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ تعالی کے مجموعۂ ملفوظات "الکلام الحسن" کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:

"نصبِ خلیفہ (یعنی امیر المومنین مقرر کرنا) واجب ہے، لیکن واجب کے لیے قدرت شرط ہے۔ اور قدرت مفقود ہے، اس واسطے گو عالَم اس وقت خلیفہ سے خالی ہے، لیکن بایں حالات خلیفہ کے نہ ہونے سے کوئی گناہ نہیں۔(الکلام الحسن، ص:15)"

"امداد الفتاوی " سے ایک فارسی سوال وجواب نقل کرکے متعلقہ حصہ کا اردو ترجمہ کیا جاتا ہے:

                                                                     "معنی حدیث من لم یعرف امام زمانہ مات میتۃً جاہلیۃً

سوال (461) ما قولکم اندریں کہ سلطانِ روم دریں وقت امام اند یا نہ، سلطان اگر امام اند شرائط امام چیست؟ بیان فرمودہ تسلی بخشند، اگر امام نیست بمطابق حدیث کہ اگر بلا نصبِ امام بمیرد آں میتۃ میتتِ جاہلیۃ است، میتۃ جاہلیت لازم آید یا نہ؟ الحاصل دریں زمان امام است یا نہ؟ بر تقدیرِ اول شرائط امام چیست، وبر تقدیرِ ثانی در میتۃ ایں زمان میتتِ جاہلیت لازم آید یا نہ؟ جواب بتوضیح عنایت فرمودہ شکوک را دفع فرمایند وجوابِ مسئلہ عنایت فرمایند۔

الجواب: مسئلہ مختلف فیہ بین العلماء است بنا بر آں کہ شرطِ قریشیت در بعض حالات قابلِ سقوط است یا نہ، وآنچہ در سوال نوشتہ اند کہ مطابق حدیث اگر بلا نصبِ امام بمیرد الخ پس دریں حدیث نصبِ امام نیست، لفظِ حدیث ایں ست: من لم یعرف امام زمانہ، ومعنیش نزد بندہ آنست کہ عدمِ عرفان کنایہ است از عدمِ اطاعت بر وقت موجود بودن اطلاقاً للملزوم علی اللازم؛ لأن عدم العرفان یستلزم عدم الاطاعۃ، البتہ نصبِ امام خود بدلیلِ دیگر واجب است، ووجوبِ ہمہ واجبات مشروط می باشد بقدرت، وچوں از شرائطِ قدرت علی النصب اتفاقِ مسلمین ست وآن نظراً الی الحالۃ الحاضرۃ کبریتِ احمر است، لہٰذا معصیت لازم می آید ونہ میتۃ جاہلیۃ، واللہ اعلم، ہذا ما عندی ولعل عند غیری احسن من ہذا۔"  (امداد الفتاوی:4/369) 

اس جواب کے خط کشیدہ حصے کا ترجمہ درجِ ذیل ہے

ترجمہ: "الغرض امام کا مقرر کرنا دیگر دلائل سے واجب ہے، اور تمام واجبات کا وجوب قدرت کے ساتھ مشروط ہے، اور امام مقرر کرنے پر قدرت کی شرائط میں مسلمانوں کا اتفاق بھی ہے، اور وہ موجودہ حالت میں کبریتِ احمر (گویا محال) ہے۔ لہٰذا نہ گناہ لازم آئے گا، اور نہ جاہلیت کی موت لازم آئے گی۔  "

حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی امالی "اسلام اور سیاسی نظریات" ص:226 پر "امیر کا انتخاب اور تقرر" کے عنوان کے تحت لکھا ہے:

"پھر ان صفاتِ اہلیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی اسلام کا اصول یہ ہے کہ امیر یا خلیفہ کا تقرر شوریٰ کے ذریعے ہونا چاہیے۔ اس اصول کے دو حصے ہیں: ایک یہ کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر کوئی امیر مقرر کریں، جسے فقہ اور عقائد کی کتابوں میں "نصب الامام" سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ تقرر بطریقِ شوریٰ ہونا چاہیے۔ جہاں تک نصبِ امام کا تعلق ہے، اس کے بارے میں تمام فقہاء اور اہلِ عقائد اس بات پر متفق ہیں کہ امام کا نصب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ یعنی مسلمانوں کی پوری جماعت کے ذمہ واجب ہے کہ وہ کسی کو اپنا امام بنائیں، ایسے شخص کو امام بنائیں جو ان صفات  کا حامل ہو (امیر کی صفاتِ اہلیت، جن کا ذکر کتاب میں پیچھے آیا ہے، یعنی امیر کا عاقل و بالغ ہونا، مسلمان ہونا، مرد ہونا، بعض صورتوں میں قریشی ہونا، عالم ہونا اور عادل ہونا) جس کا حاصل یہ ہوا کہ نصب الامام ایک طرح سے فرضِ کفایہ ہوا۔ لیکن یہاں یہ فرق سمجھ لیجئے کہ نصب الامام کا واجب ہونا، اس کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو، یعنی مسلمان بغیر کسی سربراہ کے زندگی گزار رہے ہوں، کوئی ان کا حاکم نہ ہو، کوئی ان کا سربراہ نہ ہو۔ اس وقت میں مسلمانوں میں سے کسی ایک کو امام بنانا واجب ہے۔ لیکن اگر کوئی سربراہ بنا ہوا ہے، خواہ زبردستی یا تغلب سے بنا ہو، اور وہ امام صفاتِ مطلوبہ کا حامل نہ ہو، جیساکہ اس وقت اسلامی ممالک میں سربراہ موجود ہیں، لیکن وہ ان صفات کے حامل نہیں ہیں جو سربراہ کے لیے مطلوب ہیں، تو اس وقت میں مسلمانوں کا کیا کام ہونا چاہیے؟ اس کا تعلق اس مسئلے سے ہے کہ موجودہ سربراہ کو معزول کرکے کسی صحیح سربراہ کو لانے کا کیا طریقِ کار ہونا چاہیے؟ یہ مسئلہ ان شاء اللہ آگے آئے گا……الخ "

خلاصہ:

حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ تعالی اور حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی عبارات میں مسلمانوں کے اس عام طبقے کا حکم بیان کیا گیا ہے، جن کے پاس نظامِ خلافت قائم کرنے اور خلیفہ کو مقرر کرنے کا اختیار نہ ہو، جیساکہ علامہ ماوردی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس قسم کے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان پر اقامتِ خلافت میں تاخیر کی وجہ سے کوئی گناہ یا حرج لازم نہیں آئے گا۔

جہاں تک مسلم ممالک کے اربابِ اختیار واقتدار اور مقتدر طبقات کا تعلق ہے جو پوری دنیا میں خلافت کو قائم کرنے اور کسی اہل شخص کو خلیفہ بنانے کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں کوتاہی سے کام لے رہے ہیں، وہ علامہ ماوردی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق اس فرضِ کفایہ کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت تک قصور وار رہیں گے جب تک وہ  خلافت کا نظام قائم کرکے اور کسی اہل شخص کو خلیفہ بناکر اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوتے۔

البتہ چونکہ آج کل مختلف ممالک کےدرمیان جغرافیائی سرحدات قائم ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ہر ملک ایک مستقل سلطنت شمار کیا جاتا ہے، دوسرے ملک کا کوئی فرد اس میں دخل اندازی نہیں کرسکتا، مسلمانوں کے درمیان اتفاق واتحاد نہیں ہے جوکہ قیامِ خلافت کے لیے شرط ہے، اس لیے اس صورت میں مسلم ممالک کے اربابِ اختیار کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر خلافت کے قیام اور پوری دنیا میں ایک خلیفہ اور امیر مقرر کرنے کے لیے حکمت ومصلحت کے ساتھ پر امن کوشش جاری رکھیں۔

 اگر کوئی اس طرح کوشش جاری رکھتا ہے تو امید ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوگا، لیکن جو لوگ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے اپنے دائرۂ کار میں کوشش تک بھی نہیں کرتے، وہ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے قصور وار ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب

حوالہ جات
المسامرة فی شرح المسایرة(ص:142-141):
 (ونصب الإمام) بعد انقراض زمن النبوة (واجب) علی الأمة عندنا مطلقاً (سمعاً لا عقلاً) أی واجب من جهة السمع لا من جهة العقل (خلافاً للمعتزلة)….. أما وجوبه علینا سمعاً فلأنه قد تواتر إجماع المسلمین فی الصدر الأول علیه حتی جعلوه أهم الواجبات وبدؤا به قبل دفن الرسول صلی الله علیه وسلم.
الأحكام السلطانية (1/ 3):
الإمامة موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدين وسياسة الدنيا ، وعقدها لمن يقوم بها في الأمة واجب بالإجماع وإن شذ عنهم الأصم، واختلف في وجوبها هل وجبت بالعقل أو بالشرع ؟
مقدمة ابن خلدون: (1/365):                        
 نصب الإمام واجب قد عرف وجوبه فی الشرع بإجماع الصحابة والتابعین.
مراتب الإجماع لابن حزم(124)          :
اتفقوا أن الإمامة فرض وأنه لا بد من إمام حاشا النجدات (هم أتباع نجدة بن عامر النخعي)  وأراهم قد حادوا الإجماع وقد تقدمهم.
شرح العقائد (ص:353):
ثم الإجماع علی أن نصب الإمام واجب،….. والمذهب أنه یجب علی الخلق سمعاً؛   لقوله صلی الله علیه وسلم: من مات ولم یعرف إمام زمانه فقد مات میتةً جاهلیةً؛ ولأن الأمة قد جعلوا أهم المهمات بعد وفاة النبی صلی الله علیه وسلم نصب الإمام، حتی قدموه علی الدفن، وکذا بعد موت کل إمام؛ ولأن کثیراً من الواجبات الشرعیة یتوقف علیه.
الموسوعة الفقهية الكويتية( 6/ 217):
أجمعت الأمة على وجوب عقد الإمامة ، وعلى أن الأمة يجب عليها الانقياد لإمام عادل ، يقيم فيهم أحكام الله ، ويسوسهم بأحكام الشريعة التي أتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يخرج عن هذا الإجماع من يعتد بخلافه.
إزالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء(1/17):
مسئلہ: واجب بالکفایہ است بر مسلمین الیٰ یوم القیامہ نصبِ خلیفہ مستجمعِ شروط بچند وجہ: یکے آنکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم بنصبِ خلیفہ وتعیینِ او پیش از دفن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ شدند، پس اگر از شرع وجوبِ نصبِ خلیفہ ادراک نمی کردند بریں امرِ خطیر مقدم نمی ساختند، وایں وجہ اثباتِ دلیلِ شرعی از آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم می نماید بر وجہِ اجمال۔ دوم آنکہ در حدیث وارد شدہ "من مات ولیس فی عنقه بیعة مات میتة جاهلیة" یعنی ہرکہ بمیرد حال آنکہ نیست در گرنِ او بیعتِ خلیفہ مردہ است بمرگِ جاہلیت، وایں نصِ شرع است تفصیلاً۔ سوم آنکہ خدائے تعالیٰ جہاد وقضا واحیائے علومِ دین واقامتِ ارکانِ اسلام ودفعِ کفار از حوزۂ اسلام فرضِ بالکفایہ گردانید، وآن ہمہ بدونِ نصبِ امام صورت نگیرد، ومقدمۂ واجب واجب است، کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم بریں وجہ تنبیہ نمودہ اند۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    11/صفر المظفر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے