021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشر ادائیگی سے پہلے اخراجات منہا کرنے کا حکم
81200زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

عشر کی ادائیگی کے وقت وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے کے لیےہوتے ہیں، عشر کی ادائیگی سے قبل اس کو منہا نہیں کیا جاتا۔  وہ اخراجات جو کٹائی کے بعد ہوتے ہیں، مثلاً: منڈی تک پہنچانے کا کرایہ، پیٹی، شاپر، پیکنگ، لوڈنگ، منڈی والوں کا کمیشن وغیرہ، کیاایسے اخراجات عشر کی ادائیگی سے قبل منہا کیے جائیں گے؟ جامعہ الرشید کا ایک فتوی جس کا نمبر 78438 ہے، نظر سے گزرا،  جس میں ایسے اخراجات کو منہا کرنے کا فتوی ہے۔ اس بارے میں تفصیلاً راہنمائی فرمادیجئے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زمین کی پیداوار میں سے عشر کی ادائیگی سے قبل اخراجات منہا کرنے یا نہ کرنے سے متعلق صحیح تفصیل یہ ہے  کہ اخراجات دو طرح کے ہیں:

ایک وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں،  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں،  مثلاً زمین کو ہموار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ۔  یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر یا نصفِ عشر اخراجات نکالنے سے پہلے پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

البتہ پیداوار کی کٹائی کے بعد وہ اخراجات جو زراعت (کھیتی باڑی) کے امور میں سے نہیں ہوتے ، جیسے پیداوار کو منڈی تک پہنچانے کا کرایہ، اسی طرح پیکنگ، لوڈنگ وغیرہ کے جو اخراجات آئیں تو ایسے اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے دو شرائط کے ساتھ منہا کیے جاسکتے ہیں :

  1. مالک پیداور کو اسی جگہ کوئی مناسب گاہک دستیاب نہ ہو یادستیاب توہے مگرمنڈی لے جانے کی صورت میں اتنی زیادہ قیمت ملنے کاظن غالب ہوکہ اس صورت میں فقراء کوزیادہ حصہ ملتاہو۔
  2. منڈی تک لے جانے کے بعدپیداوار کی قیمت سے عشراداکرے،اگرمنڈی لے جانے کے بعد بھی عشراصل پیداوار سے اداکررہاہے تواس صورت میں بھی حمل ونقل کاکرایہ منفی نہیں کیاجاسکتا۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ جب پیداوار تیار ہوکر کاٹنے کے قابل ہوجائے تو عشر کا اصل تعلق اسی پیداوار سے ہوتا ہے، اور اگر قیمت کے حساب سے عشر ادا کرنا ہو تو اس مالیت کا اعتبار ہوتا ہے جو پیداوار پک جانے کے بعد کٹائی کے وقت اس کی قیمت ہو، اور مالک کو یہ اختیار ہے چاہے تو اسی پیداوار میں سے عشر دے دے اور چاہے تو اس کی قیمت دے دے، اور اگر مالک اس پیداوار کو یہاں سے دور کسی منڈی میں لے جانا چاہے؛ تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاسکے، جس میں فقراء کا بھی فائدہ ہو ، اور اس نے ابھی تک عشر ادا نہیں کیا تو اس صورت میں پیداوار کے کٹنے کے بعد منڈی تک پہچانے پر جو جملہ اخراجات آئیں وہ عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے جاسکتے  ہیں، کیونکہ یہ اخراجات  فقیروں کو زیادہ فائدہ پہنچانے کی وجہ سے مالک پر عائد ہوئے ہیں اس لیے اس کو منہا کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: جامعہ کے سابقہ فتوے میں بھی دوسری قسم کے اخراجات کو منہا کرنا درج بالا دونوں شرائط کے ساتھ مقید تھا، درج ذیل لنک پر وہ فتوی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

(https://almuftionline.com/2022/12/06/9262/ )

حوالہ جات
فی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 3 / ص 445):
( ولا ترفع المؤن ) أي في كل ما أخرجته الأرض لا تحتسب أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ وغير ذلك۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 62)
 ولا يحتسب لصاحب الأرض ما أنفق على الغلة من سقي، أو عمارة، أو أجر الحافظ، أو أجر العمال، أو نفقة البقر؛ لقوله - صلى الله عليه وسلم - «ما سقته السماء ففيه العشر وما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر» ، أوجب العشر ونصف العشر مطلقا عن احتساب هذه المؤن ولأن النبي - صلى الله عليه وسلم - أوجب الحق على التفاوت لتفاوت المؤن ولو رفعت المؤن لارتفع التفاوت.
(الفتاویٰ التاتارخانیہ (3ْ/292 ،  الفصل السادس  فی التصرفات فیما یخرج من الارض، کتاب العشر
"إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه".

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

11/صفر الخیر / 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے