021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح پر نکاح اوراس کےبعد پیداہونےوالے بچے کے نسب کاحکم
81220نکاح کا بیانمحرمات کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

زیدکی شادی کےکچھ عرصےبعد بیوی اپنے میکے میں بند ہوگئی(یعنی اس نے میکے میں رہنا اختیار کرلیا )کچھ عرصہ(سال)بعدعمرکی اس لڑکی کےساتھ کال پر بات ہوئی اوربات چیت سےبات نکاح تک پہنچ گئی اوردونوں نے نکاح بھی کرلیا حالانکہ وہ لڑکی زیدکی نکاح میں تھی،باوجوداس کے عمر سے نکاح کرکے وہ حاملہ بھی ہوگئی ۔

اب درجہ ذیل باتوں کے بارےمیں پوچھنامقصود ہے:

1) کیا عمر کا نکاح بدستور باقی ہے یعنی  اس  کوجاری رکھیں یا نہیں ؟

2) اگر بالفرض زید سے کسی طرح سے طلاق لے لی جائے تو کیا عمر تجدیدِ نکاح کرکے اپنے ازدواجی تعلقات قائم رکھ سکتاہے ؟

3) اگر زید طلاق نہ دے تو اس صورت میں بچہ عمر کا کہلائے گا یا وہ  زانی بچہ شمارہوگا ؟

4) اگر زید نہ طلاق دے اور نہ ہی بچہ قبول کرے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔مذکورہ عورت زیدکی بیوی ہے لہذاجب تک وہ اس کو طلاق نہ دیتااوراس کی عدت گزرنہ جاتی اس وقت تک عمرکےلے اس سےشادی کرنا،جماع کرناحرام تھا اورہے ،لہذا عمر کےساتھ اس کا سرےسے نکاح ہوا ہی نہیں جس کو جاری رکھاجاسکے،لہذا عمراوراس عورت پرواجب ہےکہ فوراً ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں اوراب تک جو انہوں نے حرام کاری اورزناکیاہے اس پر اللہ کے حضورصدقِ دل سے توبہ اوراستغفارکریں اورلڑکی زید کے پاس واپس چلی جائے۔

۲۔ بلاوجہ سے کسی سے طلاق دلوانا ناجائزکام اورظلم ہے اوراس پر سخت وعیدحدیث میں آئی ہے،لہذاس سے اجتناب کیاجائے، تاہم اگروہ خود طلاق دیدے یا اس سےکوئی زبردستی سےزبانی طلاق لے لے تو طلاق بہرحال ہوجائے گی،اگرچہ ایساکرنا جائزنہیں ہے۔طلاق کے بعد عدت جب گزرجائے توپھر مذکورہ عورت کا نکاح عمر کےساتھ ہوسکے گا،اس سے پہلے نہیں ہوسکتا۔

۳۔زیدطلاق نہ دے تو بچہ زید کا کہلائے گا اورزانی کےلیے پتھرہوگایعنی ذلت اوررسوائی ہوگی ۔

۴۔بیوی اوربچہ اسی کے حوالہ کئے جائیں گے اگروہ اس کو قبول نہ کرےاورعورت پر زنا کی تمہت لگائے اوربچے کے نسب کا انکارکردے تو لعان ہوگا اور لعان کے بعد شوہر طلاق دےگا یا عدالت ان کے درمیان تفریق کر دےگی۔ اوربچے کا نسب ماں کی طرف منسوب کردے گی ۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ایسا معاملہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے لعان کے بعد ان کے درمیان تفریق فرما دی تھی،اوربچے کا نسب عورت کی طرف کردیا تھا،زوجین کے درمیان لعان کرنے کا مکمل طریقہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَo وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَo وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ هَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَo وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَo وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ(النور، 24: 6-10)

’’اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم ایسے حالات میں زیادہ پریشان ہوتے) اور بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

حدیث مبارکہ میں ہے کہ میاں بیوی سے ایک دوسرے پر لعان کے بعد آپ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

"لاَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا"(البخاري، الصحيح، كتاب الطلاق، باب التفريق بين المتلاعنين، ج/5، ص/2036، الرقم/5008، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة- مسلم، الصحیح، كتاب اللعان، ج/2، ص/1080، الرقم/1457، بیروت: دار احیاء التراث العربي)یعنی’’حضورنبی اکرم ﷺ نے انصار کے ایک مرد اور عورت سے لعان کروایا اور اُن دونوں کے مابین تفریق کرا دی۔‘‘

       لعان کے بعد بچہ عورت کی طرف منسوب ہو جاتا ہے کیونکہ مرد تو اس کے نسب کا انکار کر دیتا ہے، اسی وجہ سے لعان کا عمل کرایا جاتا ہے۔ بچہ زانی کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جاتا  کیونکہ احادیث میں زانی کے لیے پتھر  ہیں یعنی

  اس کے لیے ذلت ورسوائی رکھی ہے، بچے کو اس کی طرف نسبت نہیں دی جاتی، یہی حکم ہے اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔اگر شوہر لعان نہ کرے تو بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں بچہ اپنے والد یعنی جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو اسی سے نان ونفقہ لے گا اور اس کی وراثت سے حصہ بھی پائے گا۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے سعد بن ابی وقاص سے وعدہ لیا کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا میرا ہے اس پر قبضہ کر لینا، فتح مکہ کے سال سعد بن ابی وقاص نے اسے پکڑ لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے عہد لیا گیا ہے۔ عبداﷲ بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ سعد عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! میرا بھتیجا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے عہد لیا گیا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اُن کے بستر پر ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"البخاري، الصحیح، كتاب الفرائض، باب الولد للفراش حرة كانت أو أمة، ج/6، ص/2481، الرقم/6368- مسلم، الصحیح، كتاب الرضاع، باب الولد للفراش وتوقي الشبهات، ج/2، ص/1080، الرقم/1457’’یعنی بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘

      حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

"الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"مسلم، الصحیح، كتاب الفرائض، باب الولد للفراش حرة كانت أو أمة، ج/2، ص/1081، الرقم/1458، أحمد بن حنبل، المسند، ج/2، ص/280، الرقم/7749، مصر: مؤسسة قرطبةیعنی ’’بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہیں‘‘

مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق بچہ اسی کا ہوتا ہے جس کی عورت منکوحہ ہوتی ہے جب تک کہ وہ مرد خود اس بچے کے نسب کا انکار نہ کر دے۔ اگر مرد بچے کے نسب کا انکار کر دے تو شرعی طریقہ کے مطابق لعان کے بعد بچہ عورت کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے، اس صورت میں مرد اس بچے کے نان ونفقہ کا ذمہ دار نہیں رہتا اور نہ ہی ایسا بچہ مرد کی وراثت سے حصہ پاتا ہے۔ اگر مرد بچے کے نسب کا انکار نہ کرے تو بچہ اسی کا شمار ہوگا، اس بچے کا نان ونفقہ بھی مرد کے ذمہ ہوگا اور بچہ وراثت سے حصہ بھی پائے گا۔

حوالہ جات
وفی سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329)
عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عبد الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .
وفی سنن ابن ماجة للقزويني - (ج 2 / ص 172)
عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال : يا رسول الله ! إن سيدا زوجنى أمته ،وهو يريد أن يفرق بينى وبينها ، قال ، فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فقال " يا أيها الناس ! ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق " .
وفہ المبسوط - (ج 34 / ص 176)
والخامسة : منكوحة الغير أو معتدة الغير ، فإنها محرمة عليه إلى غاية وهي انقضاء العدة.
وفی رد المحتار - (ج 12 / ص 383)
أما منكوحة الغير فهي غير محل إذ لا يمكن اجتماع ملكين في آن واحد على شيء واحد.
وفی المبسوط لشمس الدين السرخسي - (ج 9 / ص 362)
إذا كانت المرأة منكوحةالغير أو محرمة عليه بسبب لا ينفذ قضاؤه لانعدام المحل.
الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم - (ج 2 / ص 160)
عن نافع عن ابن عمر أن رجلاً رمى امرأته فانتفى من ولدها في زمان رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فأمرهما رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فتلاعنا كما قال الله ثم قضى بالولد للمرأة وفرق بين المتلاعنين.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۱١/۲/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے