021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ساری مخلوق کے نافرمان بن جانے کی صورت میں اللہ تعالی کے ایک جانور کا ان سب کو نگل جانا
81154حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک روایت کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے،روایت یہ ہےکہ ایک مرتبہ موسی علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے پوچھا میرے پروردگار اگر ساری دنیا آپ کی نافرمانی کرنے لگے تو آپ کیا کریں گے ؟رب العالمین نے فرمایا کہ موسی میرے پاس ایک ایسی مخلوق ہے جو ایک لقمےمیں ساری مخلوق کو کھا جائے گی، تو پھر موسی علیہ السلام نے کہاکہ یا اللہ! وہ مخلوق کہاں ہے؟ تو اللہ پاک نے کہا کہ وہ ہماری چرا گاہ میں ہے، پھر موسی علیہ السلام نے پوچھا یا اللہ !وہ چراگاہ  کہاں ہے؟ توللہ پاک نے فرمایا کہ وہ ہمارے علم میں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

روایت کےمصادر:اس روایت کو امام ثعلبی رحمہ اللہ تعالی نےاپنی تفسیر’’الكشف والبيان‘‘ میں نقل فرمایا ہے:

’’وبلغنا أن بعض الأنبياء قال: يا رب! لو أن السماوات والأرض حين قلت لهما ائتيا طوعا أو كرها عصيناك، ما كنت صانعا بهما؟ قال: كنت آمر دابة من دوابي فتبتلعهما، قال: وأين تلك الدابة؟ قال: في مرج من مروجي، قال: وأين ذلك المرج؟ قال: في علم من علمي‘‘

"اور ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک نبی علیہ السلام نے کہا: اے رب! اگر آسمان وزمین آپ کی نافرمانی کرتے جس وقت آپ نے آسمان وزمین سے فرمایا تھا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبر دستی، تو آپ ان کے ساتھ کیا کرتے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: میں اپنی مخلوق میں سے ایک جانور کو حکم دیتا، وہ ان دونوں کو نگل جاتا،نبی علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ جانور کہاں ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ میری چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ میں ہے، اللہ کےنبی  نے پوچھا کہ چراہ گاہ کہاں ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: میرے علوم میں سے ایک علم میں ہے۔"

یہی روایت علامہ قرطبی  (المتوفی 427ھ) نے ’’الجامع لأحكام القرآن‘‘ میں امام ثعلبی کے حوالے سے ذکر کی ہے، نیز اسے علامہ شہاب الدین محمد بن احمد اُبشیہی (المتوفی 852ھ) نے ’’المستطرف في كل فن مستظرف‘‘ میں اور علامہ اسماعیل حقی استنبولی l (المتوفی 1127ھ) نے ’’روح البيان‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے۔

روایت کا حکم:تلاش بسیار کے باوجودمذکورہ روایت سند اً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اورجب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف نسبت کے ساتھ بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صرف ایسا کلام اور واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جومعتبر سند سے مرفوعا ومتصلا ثابت ہو۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۳صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے