81160 | طلاق کے احکام | مدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم |
سوال
میں مسمی محمدکامران ولدمحی الدین اپنی بیوی فرزانہ صدیقی کو طلاق دینا نہیں چاہتاہوں اورمیری بیوی بھی میرےساتھ رہناچاہتی ہے،لیکن میرےوالدین اورگھروالوں کےمیری بیوی سےکافی جھگڑےرہتےہیں۔
گھروالےمیرےاورمیری بیوی کےدرمیان طلاق کامطالبہ کرتےہیں،سن 2021 میں بھی گھروالوں نےطلاق نامہ بنوایا،اورمجھےکافی دباؤدیتےرہےکہ اس پرسائن کردو،لیکن میں نےسائن نہیں کیےاورلڑائی کی وجہ سےمیری بیوی اپنےگھرچلی گئی ،پرمجھ سےرابطےمیں رہی،دوسال بعد میرےوالدکی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوئی ،فالج کااٹیک ہوگیا،اس پربھی میرےگھروالےمجھےہی قصوروارسمجھتےہیں اورکہتےہیں کہ یہ سب تمہاری وجہ سےہواہے،اس باتکی وجہ سےبھی مجھے کافی اذیت میں رکھاگیاتھا۔
2023 میں دوبارہ طلاق نامہ بنواکرمجھے سائن کرنےپرمجبورکرتےرہے،والدکی بیماری اورمجھےاس بات کےذریعہ مجبورکرتےرہے"گھرچھوڑدویااس کو چھوڑدو ،والداوروالدہ کےبےحداصراراوررونےدھونےنےمجھےبہت زیادہ ڈپریشن میں ڈال دیا،اورمیں نےسائن کردیے،پردل سےیازبان سےطلاق نہیں دی،یہ میرارب جانتاہےکہ کسی مجبوری اورپریشانی مین سائن کیے،مجھ سےمیرےوالدکےآنسونہیں دیکھےگئے،اب گھروالوں کوبھی شایداپنی غلطی کااحساس ہوگیاہے،الگ گھرکےلیےراضی ہیں،برائےمہربانی شرعی حکم اس معاملےمیں کیاہےبتادیں،کیامیں اپنی بیوی سےرابطہ کرسکتاہوں،ہم دونوں ساتھ ر ہ سکتےہیں یاہماری طلاق واقع ہوگئی ہے،اگرکوئی گنجائش بنتی ہےتوبتادیں،میری بیوی بھی میرےساتھ رہناچاہتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگروالدین کی کیفیت واقعتااسی طرح تھی(جس طرح سوال میں ذکرکیاگیاہے)،اسی طرح والدین کی طرف سےجوگھرچھوڑنےکی دھمکی دی گئی ہے،اس بارےمیں شوہرکوظن غالب یایقین ہوکہ اگرطلاق نامہ پر دستخط نہ کیےتووالدین واقعتاگھرسےنکال دیں گےاوراس کےپاس اپنی رہائش کےلیےبندوبست بھی نیں تھا،یاپھروالدین کی کیفیت کی وجہ سےشوہرکواس بات کاخطرہ تھاکہ والدین مزیدبیمارہوجائیں گے(جیسےگھروالوں کاکہناہےکہ پہلےطلاق نہ دینےکی وجہ سےوالدپرفالج کااٹیک ہوگیاتھا)اس لیےشوہرنےوالدین کےمجبورکرنےکی وجہ سےطلاق نامہ پردستخط کردیے،زبان سےطلاق کےالفاظ نہیں بولےاورنہ لکھتےوقت طلاق دینےکی نیت کی تھی توایسی صورت میں صرف تحریرمیں طلاق دینےسےطلاق واقع نہیں ہوئی،سابقہ نکاح برقرارہےگا،لہذامیاں بیوی دوبارہ ساتھ رہ سکتےہیں۔
لیکن اگرشوہرکو اس بات پریقین تھاکہ طلاق نامے پردستخظ نہ کرنےکی صورت میں ایساکچھ نہیں ہوگا، والدین کی طرف سےرونادھوناصرف وقتی طورپرہے،اسی طرح گھرسےنکالنےکی دھمکی بھی صرف دباوڈالنےکی حدتک ہے،والدین کی طرف سےعملاایسانہیں ہوسکےگاتوایسی صورت میں طلاق نامےمیں مذکورہ طلاقیں واقع ہوجائیں گی،چونکہ طلاق نامہ میں تین طلاقیں دی گئی ہیں،لہذاایسی صورت میں تین طلاق مغلظہ واقع ہوجائیں گی،اوربیوی شوہرپرحرام ہوجائےگی،ا س کےبعد بغیرحلالہ کےدوبارہ نکاح کرنابھی جائزنہ ہوگا۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 10 / 458:
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق ، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ۔
"الفتاوى الهندية " 8 / 365:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان ۔
"رد المحتار"25 / 76:( وشرطه ) أربعة أمور : ( قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا ) أو نحوه ( و ) الثاني ( خوف المكره ) بالفتح ( إيقاعه ) أي إيقاع ما هدد به ( في الحال ) بغلبة ظنه ليصير ملجأ ( و ) الثالث : ( كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا ) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن ، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال ( و ) الرابع : ( كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله ) إما ( لحقه ) كبيع ماله ( أو لحق ) شخص ( آخر ) كإتلاف مال الغير ( أو لحق الشرع ) كشرب الخمر والزنا۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
11/صفر 1445ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |