021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجارہ اور وکالت سے متعلق مسئلہ
81182وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

مندرجہ ذیل مسئلے کا شریعت مطہرہ کی روشنی میں حل درکار ہے:

مسئلہ یہ ہے کہ سعید نے حضرت علی سے چالیس ہزار روپے لیکر فروٹ چاٹ کا ٹھیہ اس بنیاد پر خریدا کہ ٹھیہ حضرت علی کی ملکیت ہوگا اور سعید اسے ٹھیے کا 6 ہزار ماہانہ کرایہ دے گا۔ اس کے بعد ایک مہینہ ٹھیہ چلایا، لیکن نیا نیا کاروبار تھا لہٰذا کاروبار نہ چلنے اور مسلسل نقصان کی بناء پر بند کردیا اور ایک ماہ کا کرایہ بھی سعید کے ذمے رہ گیا۔ حضرت علی کو اس معاملے کی اطلاع دی،  اس نے کہا کہ ٹھیہ بیچ دو اور مجھے رقم واپس دیدو۔ لیکن اب چالیس ہزار والے ٹھیے کی قیمت وہ نہیں لگ رہی تھی بلکہ بیس ہزار سے زیادہ میں کوئی لینے کو تیار نہیں تھا، لہٰذا دو تین ماہ ٹھیہ کھڑا رہا لیکن کوئی مناسب رقم دینے والا خریدار نہیں آیا۔

اس دوران سعید کو پتہ چلا کہ ایک تیسرا شخص کلیم اللہ فروٹ چاٹ کا چلتا ہوا ٹھیہ بیچنا چاہتا ہے، چونکہ کلیم اللہ کا چلتا ہوا کاروبار تھا اور آمدن اچھی تھی، لہٰذا سعید نے کلیم اللہ سے بات چیت کی، کلیم اللہ کو علم تھا کہ سعید اپنا (یعنی حضرت علی والا) ٹھیہ بیچنا چاہتا ہے تو اس نے سعید سے کہا کہ میں آپ کو اپنا ٹھیہ ستر ہزار (70,000)روپے میں دوں گا اور آپ کا کام مزید اس طرح آسان کردوں گا کہ آپ مجھے 50 ہزار روپے نقد دے دیں اور باقی 20 ہزار روپے میں مَیں آپ کا ٹھیہ لے لوں گا، اس طرح سعید نے کلیم اللہ سے چلتا ہوا ٹھیہ 70,000روپے میں خریدا اور اس میں سے  50ہزار روپے نقد ادا کردیے اور باقی 20 ہزار روپے کے بدلے میں حضرت علی والا ٹھیہ جو بیچنے کے لیے بند کھڑا تھا، یہ سوچ کر دے دیا کہ حضرت علی کو ویسے بھی چالیس ہزار دینے ہیں بعد میں دے دیں گے۔یہاں سعید نے غلطی یہ کی کہ حضرت علی سے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں کیا۔

اس دوران حضرت علی نے کئی بار اپنی رقم کا مطالبہ کیا لیکن سعید کے پاس رقم دینے کی کوئی گنجائش نہیں بنی۔

اب حضرت علی کا کہنا ہے کہ میرا ٹھیہ بیچا نہیں گیا ہے بلکہ اس کے بدلے دوسرا ٹھیہ خریدا گیا ہے تو اب جب تک سعید مجھے میرے چالیس ہزار روپے واپس نہیں کرتا تب تک چھ ہزار ماہانہ کرایہ دے گا، حالانکہ نیا ٹھیہ سعید کی ملکیت ہے نہ کہ حضرت علی کی کیونکہ نیے ٹھیے کی قیمت میں 50000 روپے سعید نے اپنی جیب سے دیے ہیں اور حضرت علی کے ٹھیے کی قیمت بیس ہزار لگی ہے۔

اب معلوم یہ کرنا ہےکہ:

(1) نیے ٹھیے میں حضرت علی اپنی ملکیت کا دعوی کرسکتا ہے یا نہیں؟

(2) اگر نیے ٹھیے میں حضرت علی کی ملکیت ثابت ہوتی ہے تو کرایہ کس حساب سے دیا جائے گا کیونکہ حضرت علی کے بیس ہزار جبکہ سعید کے پچاس ہزار روپے لگے ہیں؟

(3) اور حضرت علی کو چھ ہزار ماہانہ کرایہ اس بنیاد پر دینا جائز ہوگا کہ سعید اس کا چالیس ہزار کا مقروض ہے یا یہ سود میں شمار ہوگا؟

(4) نیز مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں حضرت علی کتنی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے بیس ہزار روپے کا یا چالیس ہزار کا کیونکہ ٹھیے کی قیمت بیس ہزار لگی ہے۔ چھ ہزار روپے ایک ماہ کا کرایہ الگ باقی ہے۔

(5) یہ کہ درمیان میں دو ڈھائی مہینے ٹھیہ حضرت علی کے کہنے پر بیچنے کے لیے کھڑا رہا، کیا ان مہینوں کے کرایہ کا مطالبہ شرعاً درست ہوگا یا نہیں؟

وضاحت: سائل کے پاس حضرت علی کے 40ہزار روپے رکھے تھے، سائل نے کہا کہ میں ان پیسوں سے تمہارے لیے ٹھیہ خرید لیتا ہوں، میں چلاوں گا اور تمہیں کرایہ ادا کروں گا۔ حضرت علی کی اجازت کے بعد سائل نے ٹھیہ خریدا جو چند دن سائل کے گھر پر تھا، حضرت علی اس کو دیکھنے بھی آیا، پھر سائل نے وہ چلانا شروع کیا۔

حضرت علی کم قیمت پر ٹھیہ بیچنے پر راضی نہ تھا، اور جب اس کو معلوم ہوا کہ ٹھیہ سعید نے کم قیمت پر فروخت کردیا ہے تو اس نے کل قیمت کا مطالبہ کیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

-1,2 نیے ٹھیے میں حضرت علی کی ملکیت کا دعوی درست نہیں، وہ سعید کا ہے۔

-3صرف مقروض ہونے کی وجہ سے حضرت علی کو کرایہ دینا جائز نہیں، یہ سود ہے۔

-4حضرت علی نے سعید کو اپنا ٹھیہ بیچنے کا کہا تو سعید اس کا وکیل بن گیا، جس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ

مؤکل (بیچنے کا حکم دینے والا/مالک) نے بیچنے کے لیے کوئی قیمت متعین کی ہے یا نہیں، اگر کوئی قیمت متعین کی ہے تو وکیل کے لیے اس قیمت سے کم پر بیچنا جائز نہیں اور اگر بیچ دیا تو وہ معاملہ مالک کی اجازت پر موقوف ہوگا یعنی وہ کم قیمت پر راضی ہوجائے تو معاملہ درست ہوگا ورنہ نہیں۔ اور اگر وکیل نے کوئی قیمت متعین نہیں کی تو مؤکل کے لیے قیمت میں اتنی کمی کے ساتھ بیچنا درست ہے جتنی کمی عام طور سے تاجر برداشت کرتے ہیں، اس سے زائد کمی کے ساتھ بیچنے کی اجازت نہ ہوگی اور ایسا کرنے کی صورت میں معاملہ مالک کی اجازت پر موقوف ہوگا۔

اس تفصیل کے بعد،سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق حضرت علی ٹھیہ کم قیمت پر بیچنے پر راضی نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ قیمت ٹھیک نہ لگنے کی وجہ سے ٹھیہ دو سے تین ماہ کھڑا رہا اور جب اس کو معلوم ہوا کہ ٹھیہ بک گیا ہے تو اس نے سعید سے پوری قیمت کا مطالبہ کیا۔ اس کے باوجود سعید نے ٹھیہ آدھی قیمت میں بیچ کر تعدی/خلاف ورزی کی، لہٰذاسعید پر حضرت علی کےٹھیے کی مکمل قیمت یعنی 40ہزار روپے دینا لازم ہے۔ اس کے علاوہ ایک  ماہ کا کرایہ جو رہ گیا تھا وہ بھی سعید کے ذمہ ہے، گویا سعید کل 46روپے کا مقروض ہے۔

-5حضرت علی کے کہنے پر ٹھیہ بکنے کے لیے دو ڈھائی ماہ کھڑا رہا، ان مہینوں کے کرایہ کا مطالبہ شرعاً درست نہیں۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (6/ 27)
وأما الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا: يراعى فيه القيد بالإجماع حتى إنه إذا خالف قيده لا ينفذ على الموكل ولكن يتوقف على إجازته إلا أن يكون خلافه إلى خير، لما مر أن الوكيل يتصرف بولاية مستفادة من قبل الموكل فيلي من التصرف قدر ما ولاه وإن كان الخلاف إلى خير فإنما نفذ لأنه إن كان خلافا صورة فهو وفاق معنى لأنه آمر به دلالة فكان متصرفا بتولية الموكل فنفذ بيان هذه الجملة إذا قال بع عبدي هذا بألف درهم فباعه بأقل من الألف لا ينفذ. وكذا إذا باعه بغير الدراهم لا ينفذ وإن كانت قيمته أكثر من ألف درهم لأنه خلاف إلى شر لأن أغراض الناس تختلف باختلاف الأجناس فكان في معنى الخلاف إلى شر، وإن باعه بأكثر من ألف درهم نفذ لأنه خلاف إلى خير فلم يكن خلافا أصلا وكذلك على هذا لو وكله بالبيع بألف درهم حالة فباعه بألف نسيئة لم ينفذ بل يتوقف لما قلنا، وإن وكله بأن يبيعه بألف درهم نسيئة فباعه بألف حالة نفذ لما قلنا، وإن وكله بأن يبيع ويشترط الخيار للآمر فباعه ولم يشترط الخيار لم يجز بل يتوقف. ولو باع وشرط الخيار للآمر ليس له أن يجيز لأنه لو ملك الإجازة بنفسه لم يكن للتقييد فائدة۔ هذا إذا كان التوكيل بالبيع مقيدا فأما إذا كان مطلقا فيراعى فيه الإطلاق عند أبي حنيفة فيملك البيع بالقليل والكثير، وعندهما لا يملك البيع إلا بما يتغابن الناس في مثله وروى الحسن عن أبي حنيفة مثل قولهما۔  وجه قولهما أن مطلق البيع ينصرف إلى البيع المتعارف والبيع بغبن فاحش ليس بمتعارف فلا ينصرف إليه كالتوكيل بالشراء.
شرح فتح القدير (7/ 250)
لأنه صلى الله عليه وسلم نهى عن قرض جر نفعا رواه الحرث بن أبي اسامة في مسنده عن حفص بن حمزة أنبأنا سوار بن مصعب عن عمارة الهمداني قال سمعت عليا رضي الله عنه يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل قرض جر نفعا فهو ربا.

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۵/صفر المظفر/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے