021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کالج اور یونیورسٹیز میں ایمان کی حفاظت کیسے کی جائے؟
81214ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

کالج ویو نیورسٹی کے ایمان سوز ماحول میں اپنے ایمان کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عصرِ حاضر میں کالج، یونیورسٹی اور جدید تعلیمی اداروں میں ایک طالبِ علم اور طالبہ کو کئی ایسے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جو اس کے دین و ایمان کے لیے خطر ناک ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ماحول میں اپنے دین و ایمان اور عمل کی حفاظت کی فکر کرے۔ مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنے سے ان شاء اللہ یہ کام آسان ہوجائے گا۔  

(1)۔۔۔ تقویٰ کا اہتمام۔ تقویٰ کا آسان مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ کام کیے جائیں جن کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور ان کاموں سے بچا جائے جن سے بچنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ جو انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں اور اعمال کی اصلاح فرماتے ہیں اور اس کے گناہوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{یَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ  ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا} (71) [الأحزاب]

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے فائدے کے لیے تمہارے کام سنوار دے گا اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کر دے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اس نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو زبردست کامیابی ہے۔ (آسان ترجمۂ قرآن)

(2)۔۔۔ نماز کی پابندی۔ نماز کلمہ طیبہ کے بعد دینِ اسلام کا سب سے اہم رکن اور ستون ہے، نماز انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:

{اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ} [العنكبوت: 45]

ترجمہ: "(اے پیغمبر ! ) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت  کرو اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

(3)۔۔۔ قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس کا مستند ترجمہ و تفسیر پڑھنا۔ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی آخری کتاب ہے، جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے بمنزلہ ہے۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ کوئی مستند ترجمہ اور تفسیر بھی مطالعے میں رکھی جائے اور کسی مستند عالم کی زیرِ نگرانی اس کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن کا پیغام سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ قرآن ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے، کن چیزوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے روکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا ترجمہ مفید ہے جو اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں چھپا ہوا ہے۔ اس میں ترجمہ کے ساتھ مختصر تفسیر بھی شامل ہے۔

(4)۔۔۔ علمِ دین کا حصول۔ ہر مسلمان مرد و عورت پر بنیادی عقائد اور ان مسائل سے واقف ہونا فرضِ عین ہے جو اس کی روز مرہ زندگی میں پیش آتے ہوں، کیونکہ دین کا علم ہوگا تو اس کے تقاضوں پر عمل اور اپنے ایمان کی حفاظت ممکن ہوگی۔ اس لیے کالج اور یونیورسٹی کی مصروفیات کے ساتھ روزانہ تھوڑا سا وقت مستند علمائے کرام سے علمِ دین حاصل کرنے کے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ ہفتہ اتوار یعنی چھٹی کے دنوں میں ذرا زیادہ وقت نکالنا چاہیے۔

(5)۔۔۔ مستند اہلِ علم سے علم حاصل کرنا اور دین کا صحیح علم نہ رکھنے والی شخصیات کو مذہبی راہنما بنانے سے اجتناب۔ ایک مسلمان پر جس طرح دین کا علم حاصل کرنا ضروری ہے، اسی طرح اس پر صحیح اور مستند علمائے دین کی تلاش بھی لازم ہے جن سے وہ دین کا صحیح علم و فہم حاصل کرسکے۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں حضرت محمد بنِ سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد منقول ہے:

عن محمد بن سيرين قال: إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم(صحيح مسلم:1/ 14)

ترجمہ: بے شک یہ علم (یعنی قرآن وحدیث اور دین کا علم خود) دین ہے، لہٰذا جس سے تم اپنا دین سیکھو اور حاصل کرو، اسے اچھی طرح دیکھو۔

یعنی پہلے یہ دیکھو کہ جس سے تم دین کا علم حاصل کرنا چاہیتے ہو وہ خود صحیح علم رکھتا ہے یا نہیں؟ قابلِ اعتماد ہے یا نہیں؟ اس کی پہچان کا ایک طریقہ اس کے بارے میں مستند اور ماہر اہلِ علم کی رائے معلوم کرنا ہے، اگر وہ اس پر اعتماد کرتے ہوں تو اس سے علم حاصل کرنا چاہیے، ورنہ نہیں۔ جیسے کسی ڈاکٹر کی مہارت کی پہچان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کی فیلڈ کے ماہر ڈاکٹرز اس پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں؟

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں اس پر بات کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے؛ کیونکہ آج کل ہر شخص خود کو عالمِ دین اور مذہبی سکالر باور کراتا ہے اور عوام کی دلچسپی کے چند موضوعات پر گفتگو کر کے یا چند تاریخی اور متنازعہ موضوعات پر گفتگو کر کے شہرت حاصل کرلیتا ہے، پھر بزعمِ خود لوگوں کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ خود بھی غلط راستے پر چل رہا ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی غلط راہ پر لے کر جارہا ہوتا ہے۔

(6)۔۔۔ اچھی اور نیک صحبت کا اہتمام اور بری صحبت سے اجتناب؛ کیونکہ انسان کے خیالات، رجحانات اور فکر و نظر کی تشکیل میں صحبت اور دوستوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرء على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالط. وقال مؤمل: من يخالل. (مسند أحمد :13/398)

ترجمہ: انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص اس بات کا اچھی طرح خیال رکھے کہ وہ کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور ملتا جلتا ہے۔ ایک راوی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص اچھی طرح خیال رکھے کہ وہ کس کو دوست رکھتا ہے۔

  اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ناقابلِ انکار حقیقت بیان فرمائی ہے، انسانی طبیعت اور نفسیات اپنے ماحول سے متاثر ہونے کی ہے، وہ غیر شعوری طور پر اپنے آس پاس لوگوں کے اقوال، افعال اور حرکات و سکنات سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر وہ دین سے محبت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ اپنی نشست و برخاست رکھے گا تو اس کے دل میں بھی دین و ایمان کی محبت پیدا ہوگی اور اس کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوگا، لیکن اگر وہ دین سے بے زار یا فسق و فجور میں مبتلا لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست رکھے گا تو ایک دن وہ خود بھی انہیں کاموں میں مبتلا ہوجائے گا۔

(7)۔۔۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے اپنے آپ کو بچانا۔ جدید ٹیکنالوجی، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی مثال دو دھاری تلوار کی ہے، اگر انہیں احتیاط کے ساتھ مثبت اور فائدہ مند کاموں کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بڑی خیر کا ذریعہ بن سکتے ہیں، لیکن دوسری طرف ذرا بے احتیاطی سے یہ وسائل انسان کے ایمان، عقیدہ، حیاء اور اسلامی اخلاق کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے کثرتِ استعمال سے بچنا چاہیے، انہیں صرف اپنی تعلیمی اور دیگر جائز اور مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرنا چاہیے، ایسے افراد، ویب سائٹس، پیجز اور چیلنز دیکھنے اور سننے سے مکمل پرہیز کرنی چاہیے جن کی سرگرمیاں شریعت کے دائرے سے باہر ہوں۔ خلاصہ یہ کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی اچھی صحبت میں رہنا چاہیے اور بری صحبت سے بچنا چاہیے۔

 (8)۔۔۔ مذکورہ بالا تمام اچھے کاموں پر عمل پیرا ہونے اور برے کاموں سے بچنے کے لیے علمائے کرام اور اہل اللہ کی صحبت اور راہنمائی بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:

  {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ} [التوبة: 119]

 ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔  (آسان ترجمۂ قرآن)

صادقین یعنی سچے لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو زبان کے بھی سچے ہوں اور کردار کے بھی سچے ہوں، جو دین کا صحیح علم بھی رکھتے ہوں اور اس علم پر عمل بھی کرتے ہوں۔ اس مقصد کے لیےعلمائے کرام کی اصلاحی مجالس میں جانا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ حسبِ سہولت بیٹھنا اور وقت لگانا چاہیے۔

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        16/صفر المظفر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے