021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض لئے چاندی کے سکوں کےبدلے بطوررہن لی جانے والی زمین واپس کرنے کاحکم
81219سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے  میں کہ

 کافی عرصہ پہلے ایک شخص نے دوسرے شخص سے  18 چاندی کے سکے لئےاور بدلے میں اپنی زمین رہن میں دی کچھ عرصہ کے بعد وہ دونوں شخص فوت ہو گئے،وقت گزرتا رہا، اب ان دونوں کی تیسری پیڑھی(اولاد/نسل) وہاں آباد ہے،آج ان کے درمیان جھگڑا پیدا ہو گیا ہے ،وہ شخص زمین کا مطالبہ کر رہا ہے۔اب شریعت کی روشنی میں فیصلہ فرمائیں کہ وہ شخص زمین واپس کرے یا نہ کرے اگر کرے تو بدلے میں کیا مطالبہ کر سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شخص مذکورزمین ضرورواپس کرے گا،اس لیے کہ یہ زمین اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ بطور رہن اس کے پاس تھی اورقرض ملنے پر مرہونہ چیز واپس مالک کو لوٹانا ضروری ہوتی ہے،لہذامذکورہ شخص زمین واپس کرے گااوراس کے بدلے مقروض سے صرف قرض میں دیئے  18 چاندی کے سکوں کا ہی مطالبہ کرسکتاہے، کیونکہ اس کا حق صرف یہی ہے، البتہ اگر طرفین قرض کی واپسی پیسوں کی صورت میں کرنے پرراضی ہوجائیں توپھر ان 18 چاندی کے سکوں کی موجودہ قیمت (یعنی قرض کی ادائیگی کے دن جو قیمت بنتی ہوگی اس)کااعتبار ہوگا؛ لہذا قرض کی وصولی کے وقت مارکیٹ میں ان سکوں کے بقدرچاندی کا جو ریٹ ہو گا وہ اداکرنا ہوگا۔اورقرض دہندہ زمین واپس کرے گا۔

واضح رہے کہ مالِ مرہون سے فائدہ اٹھانا مرتہن کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ راہن اس کی اجازت دیدے؛

اس لیے صورت مسئولہ میں قرض دہندہ کے لیے مقروض کی زمین (جو اس کے پاس بطور رہن تھی) سے کھیتی وغیرہ کرکے نفع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، اگرچہ مقروض نے اس کی اجازت دی ہو؛ کیونکہ رہن سے انتفاع درحقیقت قرض دے کر نفع لینا ہے اور اسے حدیث میں ”سود“ قرار دیا کیا ہے، کل قرض جر منفعة فھو ربا (مصنف ابن أبي شیبہ، رقم: ۲۰۶۹)  اور سود لینا باہمی رضامندی سے بھی درست نہیں ہوتا۔لہذا زمین واپسی کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر واجب ہے کہ اپنے سودی معاملہ پراللہ کے حضور  توبہ اوراستغفاربھی کرے اورآئندہ کےلیے اس سےمکمل اجتناب کرے،اورجونفع اب تک زمین سے اٹھایاہے وہ راہن کو واپس کردے اوراگرواپس نہیں کرناچاہتاتواسی کے بقدرقرض سے کٹوتی کروالے،راہن کی طرف سے نفع مرتھن کےلیے حلال قراردینے سےبھی وہ حلال نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
وفی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279)
"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".
وفیه أیضاً (2/ 227)
" الديون تقضى بأمثالها". فقط والله أعلم
وفی الدر المختار ( ۷/۳۸۸، ۳۸۹، ط: زکریا دیوبند)
هو ․․․․ عقد مخصوص ․․․․․ یرد علی دفع مال ․․․ مثلي ․․․․ لآخر لیرد مثلہ ․․․․․ وصح القرض في مثلي ․․․․․ لا في غیرہ ․․․․․ فیصح استقراض الدراھم والدنانیر الخ
وفی الشامیة  (ج:5، ص:161، ط:ایچ ایم سعید) 
"فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً".
وفی الشامیة : (۵/۳۳۵)
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 12 / ص 230)
عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، فإنه سأل رسول الله عليه الصلاة والسلام وقال: إني أكري الإبل من البقيع إلى مكة بالدراهم وآخذ مكانها دنانيراً أو بالدنانير وآخذ مكانها دراهم، فقال عليه السلام: «لا بأس بأن تأخذ بسعر يومها وقد افترقتما وليس بينكما عمل»
الاستذكار لأبی عمر النمري - (ج 6 / ص 380)
اختلفوا في الرجل يبيع سلعته بدراهم إلى أجل فحل الأجل هل له أن يأخذ فيها ذهبا أم لا  فمذهب مالك وأصحابه أن ذلك جائز في الدراهم من الدنانير والدنانير من الدراهم يأخذها لما اتفقا عليه من الصرف في حين التراضي قبل الافتراق  وهو قول أبي حنيفة وأصحابه إذا تقابضا في المجلس  وقال عثمان البتي يأخذ الدنانير من الدراهم والدراهم من الدنانير بسعر يومه فإن افترقا لم يجز عند جميعهم وكان على المبتاع الدراهم التي ابتاع بها السلعة حتى يتفقا ويتقابضا قبل الافتراق.
’’ وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه ‘‘.
وفیہ ایضا(۵/ ۳۱۰)
’’ لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا ‘‘.
وفیہ ایضاً (5/ 166):
’’ لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم،قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً ‘‘. 
  ’’
وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار: ۵/ ۳۱۱)
(وراجع لرد الانتفاع من المرھون الی الراھن فتاوی رشیدیة ص:52 وفتاوی محمودیة 13/383)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 19صفرالمظفر1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے