021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکا بیوی کومکان ہبہ کرنا
81241ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 عبدالرزاق نے ایک گھر خرید کر اپنی بیوی کو ملکیت کے طورپر دے دیا، پاکستان کے قانون کے مطابق کاغذات بھی اپنی بیوی کے نام کر دیے ،اس کے گواہ بھی موجود ہیں، ساتھ ساتھ قبضہ اور کلی اختیار بھی دے دیا توکیاشرعاً یہ مکان اس  بیوی کا ہوگیا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہبہ کےلیے قبضہ تام ضروری ہوتی ہے، اس کے بغیرہبہ تام نہیں ہوتا ،لہذا مسئولہ صورت میں اگرشوہرنےاپنا تصرف ختم کرکے مذکورہ مکان بیوی کے حوالہ کردیا ہوتو پھرتو قبضہ تام ہونے کی وجہ سےہبہ مکمل ہوگیا اوربیوی اس کی مالک بن گئی ہے ،لیکن اگر شوہرنے اپنا تصرف بالکلیہ ختم نہیں کیا وہ بیوی کے ساتھ اسی مکان میں رہائش پذیر ہے اوراس کا سامان بھی اسی مکان میں ہے اورایک مرتبہ بھی اپنا سامان نکالکریاسامان کےساتھ ہبہ کرناہوتو خود نکل کربیوی کو قبضہ نہ دیا ہوتو پھر اب تک یہ ہبہ تام نہیں ہوا اوربیوی اس کی مالک نہیں بنی، لہذا شوہریا تو سامان سمیت کچھ دیرکےلیے گھر سے نکل جائے، تاکہ ہبہ تام ہوجائے یاسامان سمیت گھر بیوی کو دیدے اورخود تھوڑی دیر کےلیے نکل جائے تاکہ ہبہ تام ہوجائے پھر اگروہ چاہےتو واپس آکر بیوی کے ساتھ رہائش اختیارکرسکتاہے،اس میں کوئی حرج نہیں،قبضہ پراس کا کوئی اثر نہیں پڑےگا ۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 690)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به)..... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع ".
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 12 / ص 134)
وعن أبي يوسف لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته، أو أن تهب لزوجها ولأجنبي داراً وهما فيها ساكنان،
كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن الواهب إذا كان في الدار فيده بائن على الدار، وذلك يمنع تمام يد الموهوب له،واختلفوا في الهبة الجائزة: ذكر الفقيه أبو الليث أنه لا يصير قابضا(بالتخلیة)﴾ في قول أبي يوسف، وذكر شمس الأئمة الحلواني أنه يصير قابضا ولم يذكر فيه خلافا ا ه‍.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

21/2/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے