021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کا اوالاد کی کمائی میں حق کی تفصیل
81248ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 ایک والد اپنے پانچ بچوں کی پرورش کرتاہے، ان کے سکول سے لیکران کی شادیاں اور اعلی تعلیم تک کےتمام اخراجات برداشت کرتاہے حتی کہ اپنے پوتوں کا خرچ بھی برداشت کرتاہے ،اب جب  بچے خود کمائی شروع کردیتےہیں تو کیا بچوں کی اس کمائی پروالد کاکوئی حق نہیں ہے؟ یا بچوں کی مرضی ہے کہ جو چاہیں اپنی خواہشات کے مطابق کریں؟ والد نے اپنے ان بیٹوں کواب تک  اپنے آپ سے جدا نہیں کیااور مشترکہ طورپر مل جل کررہتے ہیں اور ساری چیزیں اورمسائل والد ہی سنبھالتے ہیں ۔

اب مجھے درج ذیل باتیں پوچھنی ہے :

1۔ کیا بچوں کی  کمائی پروالد کاحق ہے؟ اگرہےتو  وہ کس تک اس میں تصرف کرسکتاہے ؟

2۔حدیث میں جو"انت ومالک لابیک "آیاہے ،اس کا کیا مطلب ہے؟ وضاحت فرمائیں۔

3۔ مذکورہ بالاصورت میں اگربچوں کی ساری کمائی والد کے تصرف میں ہوتو قربانی کا کیاحکم ہوگا؟ اگرکچھ بچے چھپ چھپاکر نصاب کے بقدرمال اپنے پاس رکھتے ہوں تو ان کی قربانی کا کیاحکم ہوگا؟

4۔مذکورہ صورت میں اگر بچے جب کمائی شروع کرلیں تو والد کو بے سہارا فقیروں کی طرح اپنے آپ کا محتاج بنائیں تو ایسے بچوں کا کیاحکم ہوگا؟

5۔پشتون معاشرے میں یہ رواج ہے کہ والد اپنے تمام بچوں کے تمام اخراجات براشت کرتاہے تاکہ مستقبل میں یہ بچے والد کا دست وبازوبن سکیں اورایسا ہی ہوتابھی ہے کہ پھر تمام بچے والد کے کہنے کے مطابق سب کچھ کرتےہیں یعنی جائزکام ،لیکن اگر اسی معاشرے میں کچھ بچے نافرمانی پراترآئیں اوراپنے والد سے صاف انکارکردیں اورکہیں کہ یہ سارامال ہماراہے تو ان بچوں کا پھر کیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ فقہاء کرام رحمھم اللہ نے لکھا ہے کہ ضرورتمند والد کا نفقہ اس کے بیٹوں پر لازم ہے،لہذا

اگر والد محتاج اور غریب ہو اور اپنی اولاد کے مال کا محتاج ہوتو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لیکر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے،  اور اس میں اولاد سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اور حدیث میں وارد’’أنت و مالك لأبیك‘‘ (تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے) کی تشریح بھی محدثین کرام نے یہی فرمائی ہے؛ لہذا والد مطلقاً اپنی اولاد کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے؛اس لیے والد بلاضرورت و احتیاج اپنے بیٹوں کا مال ان کی اجازت کے بغیر نہ استعمال کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو بطورِ ہدیہ دے سکتا ہے۔ البتہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا تقاضہ یہ ہے کہ اولاد زندگی بھر حسب استطاعت خود سے والدین پر اپنا مال خرچ کر تی رہیںاور ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتی رہیں ،بوڑھے والدین کو اپنی گھریلو ضروریات کے لیے اولاد سے مانگنے کی نوبت تک نہ آنے دیں  اور اگر وہ کوئی جائز، معقول اور قابلِ برداشت تصرف کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت بھی دیں تاکہ وہ تنگی محسوس نہ کریں،تاہم یہ اجازت دینا  واجب نہیں ہے۔

بیٹوں کی طرح والد کو بھی چاہیے کہ وہ اولاد کے ساتھ گزارے کا معاملہ کرے،سختی نہ کرے ،ان کے اموال کو اپنی ذاتی ملک نہ سمجھے،جائز حد تک ان کواس میں آزادی دے ،بلاضرورت خود ان کے اموال میں تصرف نہ کرے، اورفضول خرچی نہ کرے ورنہ تو اوالاد باغی ہوجائیں گی اورپھروہ والدکی ضروری ضروریات بھی پوری نہیں کریں گی، خلاصہ یہ ہےکہ  والد اوراولاد میں سے ہرایک کواپنی اپنی حدود میں رہناچاہیےاورایک دوسرے کاخیال رکھناچاہیے۔

اس تمہید کےبعد اب آپ کے سوالوں کا جوابات درج ذیل ہیں:

١۔ احتیاج ہو تو صرف نفقہ کی حد تک حق ہے اس سے زیادہ نہیں ،باپ بیٹوں کے مال کا مالک نہیں ہوتاکہ جیسے چاہیے تصرف کرے۔

۲۔ جمہور محدثینِ کرام اور فقہائے عظام نے دیگر نصوص (مثلًا:حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کہ" ہر انسان اپنے مال کا زیادہ حق دار ہے، اپنے والد، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے) کو مدِنظر رکھ کر اس حدیث کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ والد بوقتِ ضرورت اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت خرچہ لے سکتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ والد اپنی اولاد کی کمائی کا مالک نہیں ہوتا، البتہ محتاجی کی صورت میں بقدرِ ضرورت اسے بیٹے کا مال استعمال کرنے کی اجازت ہےاوریہی سوال میں مذکورحدیث کا مطلب ہے۔

۳۔ والد ذاتی کمائی یا بیٹوں کی طرف سے ہدیہ کردہ رقم کی وجہ سے صاحبِ نصاب ہوتواس پر قربانی واجب ہے، اور بیٹوں کے پاس اگرذاتی ملکیت میں اتنی رقم موجود ہے جس کی وجہ سے وہ صاحبِ نصاب بنتے ہوں تو ان پر بھی الگ سےقربانی واجب ہوگی یعنی جس جس بیٹے کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر نقد رقم یا ضرورت سے زائد سازوسامان موجود ہو تو اس بیٹے پر بھی قربانی واجب ہوگی اور اگر بیٹوں کے پاس ذاتی رقم کوئی نہیں ہے، بلکہ سب کچھ کماکر والد کو ہی مالک بناکر انہیں دےدیتے ہوں تو پھراس صورت میں بیٹوں پر قربانی واجب نہیں ہوگی، اوروالدپرہوگی اوروالدکی یہ قربانی صرف اسی کی طرف سے ہوگی نہ کہ  پورے گھر والوں کی طرف سے۔

۴۔ جیسے والد اپنے بچوں کو بے سہارانہیں چھوڑتا  اورجوان ہونے تک تن من  دھن لگاکران کی جملہ ضروریات کا خیال رکھتاہے،ان کی پرورش کرتاہے اورہرطرح سہولت دینے کی کوشش کرتاہے،  ایسےہی  بچوں کوبھی چاہیے کہ والد کوبے سہارا نہ چھوڑیں اور ان کی جملہ ضروریات کاخیال رکھیں اوران کے ساتھ اس طرح کامعاملہ ہرگز نہ کریں کہ جس سے وہ اپنے آپ کو بے سہارا سمجھے ۔خاص طورپران کے نان ونفقہ کا ازخود خیال رکھیں اورحتی الامکان ان کے مزاج کا بھی خیال رکھیں، تاہم والد کوبھی چاہیے کہ جب اس کی بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہوں تو بلاوجہ بچوں کو تنگ نہ کرے جس کی وجہ سے وہ والد سے دوررہنے لگیں ،اور دین اوردنیادونوں میں اپنانقصان کربیٹھیں ۔

والد کے پاس اگراپنا مال ہےتو اسی میں سے اس کا نان ونفقہ ہوگا اوراگرنہیں ہے تو بیٹوں کے مال سے ہوگا،اوراگروہ نہ دیں تو جرگہ یا عدالت کا سہارا والد اختیارکرسکتاہے۔

۵۔یقیناً شرعاً ،اخلاقااوررواجاً یہ براہے کہ بچے والد کو اس طرح صاف انکارکریں اوریہ کہے کہ یہ سارامال ہماراہے،اس سے والد کو تکلیف ہوگی ،اورشرعاً حکم ہے کہ والدین کو ہر طرح کی تکلیف سے بچایاجائے ، تاہم چونکہ شرعاً بہرحال بیٹے کی ملکیت باپ کی ملکیت سےالگ ہوتی ہے لہذا اگرواقعةً یہ انہی کی کمائی  ہو اوروہ ایسا کہیں کہ یہ ہمارا ہے مگراس کے ساتھ ساتھ والد کی جملہ پوری کرتے ہوں توپھر والدکو  بھی بچوں کی اس طرح کی بات کا برا نہیں منانا چاہیے اوربڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے، یہ سب کچھ اللہ ہے، کسی کا نہیں، آج نہیں، تو کل سب نے چھوڑکر جاناہے، لہذا اس کی وجہ سے خونی رشتےخراب نہ کئے جائیں  اوروالد اوراولاد دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھناچاہیے اورایک دوسرے کو تکلیف سے بچاناچاہیے ۔

حوالہ جات
حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 43(
"وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء".
التيسير بشرح الجامع الصغير (2/ 210):
" عَن أبي هُرَيْرَة ......... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك
لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا".
شرح سنن الترمذي (20/ 262):
"وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى". 
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 30):
"وروي عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - أن «رجلًا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوه، فقال: يا رسول الله إن لي مالًا، وإن لي أبًا وله مال، وإن أبي يريد أن يأخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت ومالك لأبيك»، أضاف مال الابن إلى الأب؛ فاللام للتمليك، وظاهره يقتضي أن يكون للأب في مال ابنه حقيقة الملك، فإن لم تثبت الحقيقة فلاأقل من أن يثبت له حق التمليك عند الحاجة.
وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أطيب ما يأكل الرجل من كسبه، وإن ولده من كسبه؛ فكلوا من كسب أولادكم إذا احتجتم إليه بالمعروف»، والحديث حجة بأوله وآخره، أما بآخره فظاهر؛ لأنه صلى الله عليه وسلم أطلق للأب الأكل من كسب ولده إذا احتاج إليه مطلقًا عن شرط الإذن والعوض؛ فوجب القول به.وأما بأوِّله فلأن معنى قوله: "وإن ولده من كسبه" أي: كسب ولده من كسبه؛ لأنه جعل كسب الرجل أطيب المأكول، والمأكول كسبه لا نفسه، وإذا كان كسب ولده كسبه كانت نفقته فيه؛ لأن نفقة الإنسان في كسبه؛ ولأن ولده لما كان من كسبه؛ كان كسب ولده ككسبه، وكسب كسب الإنسان كسبه، ككسب عبده المأذون فكانت نفقته فيه".
شرح سنن الترمذي (20/ 262):
"وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى"
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌoالبقرة، 2: 215
وفی الحدیث : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: «أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أَبُوكَ».بخاري، الصحيح، كتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، 5: 2227، رقم: 5626، بيرروت: دار ابن كثير اليمامة
أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ. أبو داود، السنن، كتاب الإجارة، باب في الرجل يأكل من مال ولده، 3: 289، بيروت: دارالفكر
الدر المختار: (315/6، ط: دار الفکر)
فتجب الأضحیة علی حرّ مسلم مقیم مؤسر عن نفسه.
مجمع الانھر: (216/2، ط: داراحیاء التراث العربی)
لأن العبادة لا تجب إلا على القادر وهو الغني دون الفقير ومقداره ما تجب فيه صدقة الفطر وقوله (عن نفسه) يتعلق بقوله تجب؛ لأنه أصل في الوجوب عليه.
الهندية: (302/5، ط: دار الفکر)
(الباب السابع في التضحية عن الغير، وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه) ذكر في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - إذا ضحى بشاة نفسه عن غيره بأمر ذلك الغير أو بغير أمره لا تجوز؛ لأنه لا يمكن تجويز التضحية عن الغير إلا بإثبات الملك لذلك الغير في الشاة، ولن يثبت الملك له في الشاة إلا بالقبض، ولم يوجد قبض الآمر هاهنا لا بنفسه ولا بنائبه، كذا في الذخيرة.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70):
"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لايجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟
(فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.
وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لايتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة".

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

21/2/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے