021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹوں کی خریدی ہوئی زمین والد صاحب کے نام کروانے کی صورت میں تقسیمِ وراثت کا حکم
81266دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میرے دادا کی زندگی میں والد صاحب اور چچاؤں نے اپنی محنت مزدوری کے پیسے اکٹھا کرکے ایک زمین خریدی، والد صاحب اور چچاؤں نے دادا سے بارہا کہا کہ وہ زمین ان کے نام کروا دیں؛ کیونکہ اس کے اصل خریدار وہ ہیں، لیکن ہماری پھپھو نے دادا کو یہ کہہ کر منع کردیا کہ آپ کے بیٹے آپ کا خیال نہیں رکھیں گے، اس لیے زمین ان کے نام نہ کروائیں۔ چنانچہ دادا نے پھپھو کے کہنے پر زمین خود اپنے نام کروالی اور بعد میں یہ کہتے رہے کہ مَیں زمین اپنے بیٹوں کے نام کروا دوں گا۔ لیکن دادا کا انتقال ہوگیا اور زمین جو اولاد نے خریدی تھی، انہی کے نام رہی۔

کیا ایسی صورت میں دادا کی میراث میں یہ زمین بھی شامل ہوکر تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی یا جو اصل خریدار تھے وہ اس کے  مالک ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ کے والد اور چچاؤں کا آپ کے دادا سے یہ کہنا کہ "زمین ان کے نام کروا دیں؛ کیونکہ اس کے اصل خریدار وہ ہیں۔" ان کی طرف سے دعویٰ ہے، اور یہ دعویٰ اس وقت شرعاً معتبر ہوگا جب دعوے دار بیٹے بیِّنہ (دلیل) یا شرعی گواہان (دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کے ذریعے اپنا دعویٰ ثابت کردیں کہ زمین انہوں نے ہی خریدی تھی، دادا نے خریداری میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ اگر دعویٰ ثابت ہو جائے تو ان بیٹوں سے اس بات پر بھی قسم لی جائے گی کہ انہوں نے والد مرحوم کی زندگی میں وہ زمین انہیں ہبہ (Gift) نہیں کی تھی، چنانچہ اگر وہ لوگ اس پر بھی قسم اُٹھا لیں تو زمین کے اصل مالک شرعاً وہی بیٹے ہوں گے جنہوں نے یہ زمین خریدی ہے؛ کیونکہ جائیداد وغیرہ محض کاغذی کاروائیوں میں کسی کے نام کروا دینے سے اُس کی ملکیت میں منتقل نہیں ہوتی۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (225/6):
"وأما حجة المدعي والمدعى عليه  فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام -: البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه. جعل عليه الصلاة والسلام البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه، والمعقول كذلك؛ لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره، وللبينة قوة الإظهار؛ لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي، واليمين وإن كانت مؤكدة بذكر اسم الله - عز وجل -، لكنها كلام الخصم، فلا تصلح حجة مظهرة للحق وتصلح حجة المدعي عليه؛ لأنه متمسك بالظاهر، وهو ظاهر اليد، فحاجته إلى استمرار حكم الظاهر، واليمين وإن كانت كلام الخصم فهي كاف للاستمرار، فكان جعل البينة حجة المدعي وجعل اليمين حجة المدعى عليه وضع الشيء في موضعه، وهو حد الحكمة."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

24/صفر الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے