81285 | گروی رکھنے کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
السلام علیکم !عرض یہ ہےکہ ۔مجھے 6.5 لاکھ رقم کی ضرورت ہے ، میرے پاس اپنا مکان ہے، جس کی قیمت تقریبا 20 لاکھ روپےہے، میرے پاس ایک بندہ ہے، جو میرا مکان گروی کے طور پر رکھ رہا ہے،6.5 لاکھ روپے دینے کے عوض میں اوراس گھر میں وہ بندہ رہے گا یا پھر وہ کرایہ پر دیگا، اس کا کرایہ مجھے نہیں ملے گا، جب تک میں اس بندہ کو پیسے واپس نہ کردوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرتہن کےلیےمرہونہ چیزسےفائدہ اٹھاناشرعاجائزنہیں ہوتا،صورت مسئولہ میں قرض کےبدلےجومکان رہن کےطورپردیاگیاہے،مرتہن کےلیےاس سےفائدہ اٹھانا(اس میں رہنایااس کاکرایہ وصول کرنا)شرعاجائزنہیں ہوگا،کیونکہ یہ قرض پر نفع ہےجوکہ سود کےحکم میں ہونےکی وجہ سےناجائزاورحرام ہوتاہے۔
حوالہ جات
"رد المحتار"27 / 308:
( لا انتفاع به مطلقا ) لا باستخدام ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة ۔
"رد المحتار"27 /310،309:( قوله وقيل لا يحل للمرتهن ) قال في المنح : وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن ، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فيكون ربا ، وهذا أمر عظيم ۔۔۔۔
قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع ، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط ، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع ، والله تعالى أعلم ۔
"معرفة السنن والآثار للبيهقي" 4 / 304:
وروينا عن فضالة بن عبيد أنه قال كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
24/صفر 1445ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |