021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باپ کا بیٹے کے مال میں حق کی تفصیل
81295ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

حیات محمد ولد دوست محمد پہلے دبئی میں کام کرتا تھا، جو ماہانہ پانچ چھ ہزار درہم کما کر اپنے گھر کا خرچہ چلاتا تھا، تواس وقت بیٹے نے جس کا نام عباس خان ولد حیات ہے ،اپنے باپ سے کہا کہ اب آپ اپنا ویزا کینسل کر دیں اب میں کمائی کے قابل ہو گیا ہوں،اب آپ میرے لیے دبئی کا ویزا بنا کر مجھے باہر بھیج دیں اور آپ گھر پر اپنے فرائض انجام دیں، میں کما کر آپ کو بھیجتار ہوں گا، تو باپ سے ویزاکینسل کر واکر باپ کو گھر پر بٹھادیا، اب کچھ عرصہ گزرنے کے بعد باپ کے خرچہ سے ہاتھ کھینچ لیایعنی باپ پر خرچہ بند کر دیا۔

اب مجھے درج ذیل باتیں پوچھنی ہے:

١۔مسئولہ صورت میں  والدین اور بہن بھائیوں کے نفقہ کا حکم تحریر فرمائیں کہ وہ  اس بیٹے عباس خان کے ذمہ لازم ہے یانہیں ؟

۲۔ دوسرا یہ کہ اس بیٹے نے اپنی کمائی سے اپنے لئے جو گاڑی یا جائیداد خریدی ہے ، اس میں ان کے والد ین اور دیگر بہن بھائیوں کا حصہ بنتاہے یا نہیں ؟

۳۔یہ بیٹا بھی دیگربیٹوں کی طرح باپ کے ساتھ مشترکہ رہائش میں رہائش پذیر ہے، پہلے والد کو گھر کا خرچہ دیتا تھا،  لیکن اب خر چہ بند کر دیا ہے اور اس نے اپنے لیے بھی جائیداد بنائی ہے ،قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا جائے کہ باپ کا بیٹے کے مال میں کیا حق بنتا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)یہ مروت کے انتہائی خلاف ہے کہ پہلے خودکہہ کر والدکا ویزا کینسل کروایا وران کویہ زبان دی کہ میں کماکر آپ کو بھیجتارہوں گا، آپ گھر پر اپنے فرائض انجام دیں اوراب ان کے خرچہ سے ہاتھ کھینچ رہاہے ایسا کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ،یہ والد کےلیے تکلف کا باعث ہے اورحکم ہے کہ والدین کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرو،تاہم ایساکرناان پرواجب ہے یانہیں؟ اس  میں یہ تفصیل ہے کہ دوسرے بہن بھائیوں کا نفقہ تو اس پرواجب نہیں ہے ،جہاں  تک والد کے نان ونفقہ کی بات ہےتو اگر والد کے پاس اپنامال ہوتو ان کا خرچہ اس میں  سےہوگا اوربیٹے پرواجب نہیں ہوگا، لیکن والد کے پاس اپنامال نہ ہو،وہ غریب ہو  اوربیٹے کے مال کا محتاج ہوتو ایسی صورت میں ان کانان ونفقہ بیٹے پراپنے حصے کے بقدرواجب ہوگا ،اس صورت میں اگروہ نہیں دیتاتوگناہگارہوگا اوروالدجرگہ یاعدالت کے توسط سے اس سے  وصول بھی کرسکتاہے ۔

 (2)بیٹےنے اپنی ذاتی کمائی سے جوگاڑی اورجائیداد خریدی ہے اس میں والدین اوردیگربہن بھائیوں کاحق نہیں  ہے،تاہم مروت کا تقاضہ یہ ہے کہ بوقتِ ضرورت بیٹا والدین اوردیگربہن بھائیوں کوگاڑی مہیا کرے اوربلاضرورت منع نہ کرے ،اس میں بہت بڑا  اجرہے۔

(3) اگر والد غریب ہو اور اپنی بیٹے کے مال کا محتاج ہوتو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لیکر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے،  اور اس میں بیٹے سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اور حدیث میں وارد’’أنت و مالك لأبیك‘‘ (تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے) کی تشریح بھی محدثین کرام نے یہی فرمائی ہے؛ لہذا والد مطلقاً اپنے بیٹے کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے؛اس لیے والد بلاضرورت و احتیاج اپنے بیٹے کا مال اس کی اجازت کے بغیر نہ استعمال کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو بطورِ ہدیہ دے سکتا ہے۔ البتہ والد کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا تقاضہ یہ ہے کہ بیٹازندگی بھر حسب استطاعت خود سے والد پر اپنا مال خرچ کرتارہے اور ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتارہے ،بوڑھے والدکو اپنی گھریلو ضروریات کے لیے بیٹے سے مانگنے کی نوبت تک نہ آنے دے  اور اگر وہ کوئی جائز، معقول اور قابلِ برداشت تصرف کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت بھی دیں تاکہ وہ تنگی محسوس نہ کریں،تاہم یہ اجازت دینا  واجب نہیں ہے۔والد کو بھی چاہیے کہ وہ بیٹے کے ساتھ گزارے کا معاملہ کرے،سختی نہ کرے ،اس کے اموال کو اپنی ذاتی ملک نہ سمجھے،جائز حد تک اس کواس میں آزادی دے ،بلاضرورت خود ان کے اموال میں تصرف نہ کرے، اورفضول خرچی نہ کرے ورنہ تو بیٹا باغی ہوجائےگا اورپھروالدکےقریب نہیں آئے گا،جس سےوہ دنیا اورآخرت میں اپنا کا نقصان کربیٹھےگا، خلاصہ یہ ہےکہ  والد اوربیٹے میں سے ہرایک کواپنی اپنی حد میں رہناچاہیےاورایک دوسرے کاخیال رکھناچاہیے۔

حوالہ جات
حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 43(
"وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء".
التيسير بشرح الجامع الصغير (2/ 210):
" عَن أبي هُرَيْرَة ......... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك
لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا".
شرح سنن الترمذي (20/ 262):
"وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى". 
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 30):
"وروي عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - أن «رجلًا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوه، فقال: يا رسول الله إن لي مالًا، وإن لي أبًا وله مال، وإن أبي يريد أن يأخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت ومالك لأبيك»، أضاف مال الابن إلى الأب؛ فاللام للتمليك، وظاهره يقتضي أن يكون للأب في مال ابنه حقيقة الملك، فإن لم تثبت الحقيقة فلاأقل من أن يثبت له حق التمليك عند الحاجة.
وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أطيب ما يأكل الرجل من كسبه، وإن ولده من كسبه؛ فكلوا من كسب أولادكم إذا احتجتم إليه بالمعروف»، والحديث حجة بأوله وآخره، أما بآخره فظاهر؛ لأنه صلى الله عليه وسلم أطلق للأب الأكل من كسب ولده إذا احتاج إليه مطلقًا عن شرط الإذن والعوض؛ فوجب القول به.وأما بأوِّله فلأن معنى قوله: "وإن ولده من كسبه" أي: كسب ولده من كسبه؛ لأنه جعل كسب الرجل أطيب المأكول، والمأكول كسبه لا نفسه، وإذا كان كسب ولده كسبه كانت نفقته فيه؛ لأن نفقة الإنسان في كسبه؛ ولأن ولده لما كان من كسبه؛ كان كسب ولده ككسبه، وكسب كسب الإنسان كسبه، ككسب عبده المأذون فكانت نفقته فيه".
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌoالبقرة، 2: 215
وفی الحدیث : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: «أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أَبُوكَ».بخاري، الصحيح، كتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، 5: 2227، رقم: 5626، بيرروت: دار ابن كثير اليمامة
أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ. أبو داود، السنن، كتاب الإجارة، باب في الرجل يأكل من مال ولده، 3: 289، بيروت: دارالفكر

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

26/2/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے