021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ذاتی زمین پرمدرسہ کی تعمیرکی ،جبکہ خریدتےوقت کوئی نیت نہیں تھی کیاحکم ہوگا؟
81358وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!عرض یہ ہےکہ 4 مرلے زمین ذاتی  مسجد سے متصل ہے، جس پر مزار بننے لگا تھا ،والد صاحب نے ذاتی مالیت سے خرید لی ،جب خریدی تھی اس وقت کوئی نیت نہیں تھی کہ  کیا تعمیر کیاجائے، کافی عرصے بعد دوست احباب کے تعاون سے اس پر مدرسہ کی تعمیر شروع کی ، دوست احباب کا تعاون اس طرح سے تھا کہ جس کا کاروبار سیمنٹ کا تھا اس نے سیمنٹ سے  تعاون کیا، سریا والے نے سریا دے کر تعاون کیا ۔

گراؤنڈ فلور پر مدرسے کی تعمیر دوست احباب کے تعاون سے کی گئی تھی۔

اوپر  کی منزل رہائش کے لئےبنائی گئ،جس کی تعمیر والدہ کی وراثت اور زیورات کو بیچ کر کی گئی تھی،اوپر کی تعمیر کے دوران والد صاحب انتقال فرما گئے، والدہ نے رہائش کےلیےتعمیرمکمل ہونے کے بعد اسے کرایے پر چڑھا دیا تاکہ گزر اوقات ہوسکے اور شادی شدہ بیٹیوں کا گھر آنے پر خرچ ٹھیک سے ہوسکے اور بیٹے کی پڑھائی ہو سکے، کچھ عرصے بعد والدہ کا انتقال ہوگیا، پہلے تو والدہ پر کچھ قرض تھا وہ قرض اسی کرایے سے ادا کیا گیا اور چچا جان جو ہمارے والدین کی وفات کے بعد ہمارے ولی بنے ،ان کے حکم سے  کرایہ اولاد میں تقسیم ہونے لگا ۔

اب سوال یہ ہے کیا یہ جگہ وقف میں آتی ہے اور کرایہ کا استعمال کیسے کیا جائے جگہ وراثت کے حکم میں ہےیا وقف کے حکم میں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ  وقف کرنےکی نیت نہیں کی گئی ،نہ خریدتےوقت  اور نہ مدرسہ بناتےوقت لہذایہ جگہ ذاتی شمارہوگی اوراس میں وراثت بھی جاری ہوگی،موجودہ صورت میں گراؤنڈفلورپرچونکہ دوست احباب کےتعاون سےمدرسہ بنایاگیاہے،لہذا ورثہ کےاتفاق رائےسےمستقبل میں اس کومدرسہ باقی رکھاجائے،اوراوپرکی جگہ جو کرائےپردی ہوئی ہے،اس کاکرایہ وراثت کےحصوں کےمطابق تمام ورثہ میں تقسیم ہوتارہے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية"19 / 23:
متولي المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتا أو دارا ثم باعها جاز إذا كانت له ولاية الشراء ، هذه المسألة بناء على مسألة أخرى إن متولي المسجد إذا اشترى من غلة المسجد دارا أو حانوتا فهذه الدار وهذا الحانوت هل تلتحق بالحوانيت الموقوفة على المسجد ؟ ومعناه أنه هل تصير وقفا ؟ اختلف المشايخ رحمهم الله تعالى قال الصدر الشهيد : المختار أنه لا تلتحق ولكن تصير مستغلا للمسجد كذا في المضمرات ولو اشترى بغلته ثوبا ودفعه إلى المساكين يضمن ما نقد من مال الوقف لوقوع الشراء له كذا في البحر الرائق ناقلا عن الإسعاف ۔
"رد المحتار 17 / 426:
( اشترى المتولي بمال الوقف دارا ) للوقف ( لا تلحق بالمنازل الموقوفة ويجوز بيعها في الأصح ) لأن للزومه كلاما كثيرا ولم يوجد هاهنا۔
الشرح:مطلب اشترى بمال الوقف دارا للوقف يجوز بيعها ( قوله : اشترى بمال الوقف ) أي بغلة الوقف كما عبر به في الخانية
قلت : وفي التتارخانية المختار أنه يجوز بيعها إن احتاجوا إليه ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

25/صفر 1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے