021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فیس تاخیر سے جمع کروانے پر جرمانہ لینے کا حکم اور اس کا متبادل
81331حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

ہمارے ادارے میں Covid-19 سے پہلے دو تین ماہ کی تنخواہیں موجود ہوتی تھیں، لیکن اس کے بعد اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر ماہ بچوں سے ملنے والی فیس سے ہی اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ 10 ہے۔ پہلے اگر کوئی بچہ اس سے تاخیر کرتا تو ہم اس سے جرمانہ لیتے، جس سے ہمیں 90% فیس قبل از وقت موصول ہوجاتی تھی۔ لیکن جرمانہ معاف کرنے کے بعد لوگ 18، 20 اور کئی بار 27 تاریخ کو بھی فیس دیتے ہیں جس کی وجہ سے ادارہ اپنے  اخراجات پورے نہیں کر پاتا۔

ہم نے "مشروع لقانون إسلامي للبیوع والدیون" میں صفحہ 98 پر شرطِ جزائی کی بحث پڑھی تھی جس میں ایک صورت یہ تھی کہ اگر مستاجر درزی سے کہے کہ اگر آپ نے کپڑے آج سی کر دئیے تو اجرت ایک درہم ہوگی اور اگر کل سی کر دئیے تو اجرت نصف درہم ہوگی۔ یہ شرط امام ابو یوسف، امام محمد اور ایک رایت میں امام احمد (رحمہم اللہ) کے نزدیک لگانا جائز ہے۔ وفاق المدارس بھی یہ صورت اختیار کرتا ہے۔ تو کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ والدین سے عقد کرتے وقت یہ طے کرلیں کہ اگر آپ 10 تاریخ تک فیس جمع کروائیں گے تو فیس 2,000/= ہوگی، اور اگر تاخیر کریں گے تو فیس 2,500/= ہوگی۔ کیا ایسی شرط لگانا جائز ہے؟ یا پھر جرمانہ ہی لیا جائے مگر بعد میں اسے صدقہ کردیا جائے؟

تنقیح: سائل نے بتایا کہ ہم فیس ایڈوانس لیتے ہیں، ہر مہینے کی فیس اس مہینے کے آغاز پر لیتے ہیں۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فیس تاخیر سے جمع کرانے پر جرمانہ لینا تو بہر حال ناجائز ہے، چاہے رکھنے کی نیت سے لیا جائے یا صدقہ کرنے کی نیت سے، اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔ جہاں تک درزی سے کپڑے سلوانے میں اجرت کی تردید کا تعلق ہے تو وہ اجارے کا معقود علیہ عمل جلد یا دیر سے کرنے کی وجہ سے ہے۔ جبکہ صورتِ مسئولہ میں اجارے کا معقود علیہ عمل تعلیم ہے، اس میں تقدیم، تاخیر نہیں، بلکہ اجرت یعنی فیس کی ادائیگی میں تقدیم، تاخیر ہوتی ہے، اس لیے اس کو درزی والے مسئلے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔   

اسی طرح وفاق المدارس یا دیگر ادارے جو مختلف اوقات میں داخلہ بھیجنے کی مختلف فیس لیتے ہیں، وہ در حقیقت جلد یا دیر سے فیس دینے کی وجہ سے مختلف اجرت نہیں لیتے، بلکہ مختلف اوقات میں معاملہ کرنے کی مختلف اجرت (فیس) لیتے ہیں، مثلا اگر کوئی آج ان سے معاملہ کرے گا تو وہ اس کو اپنی خدمات (مثلا) دو ہزار میں فراہم کریں گے، لیکن اگر کوئی ایک ماہ بعد معاملہ کرے گا تو اسے (مثلا) تین ہزار میں خدمات فراہم کریں گے۔ جبکہ صورتِ مسئولہ میں ایسا نہیں، یہاں سب لوگ ایک ہی وقت میں معاملہ کرتے ہیں اور ادارے کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ تقدیم یا تاخیر اجرت کی ادائیگی میں ہوتی ہے۔  

البتہ اس مشکل کو حل کرنے کی جائز اور بے غبار صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اصل فیس جرمانہ کے بقدر زیادہ مقرر کی جائے، اور داخلہ دیتے وقت تمام طلبا اور ان کے والدین کو بتایا جائے کہ جو لوگ دس تاریخ تک فیس دیں گے ان کو اتنی رعایت دی جائے گی۔ مثلا اگر کسی اسکول کی فیس 2,000/= روپے ہے اور اسکول فیس کی ادائیگی میں تاخیر پر 500/= روپے جرمانہ لیتا ہے تو وہ اصل فیس 2,500/= روپے مقرر کرے، پھر جو لوگ دس تاریخ تک فیس دیں، ان کو 20% یعنی 500 روپے رعایت (Discount) دے کر ان سے 2,000/= روپے وصول کرے، اور جو لوگ دس تاریخ کے بعد فیس دیں، ان سے پوری فیس وصول کرے۔ مگر داخلہ فارم میں اس کو وعدہ کے عنوان سے ذکر کیا جائے؛ لعدم جواز تعلیق الإبراء۔   

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (4/ 59):
ولا يصح تعليق الإبراء عن الدين بالشرط كما إذا قال لمدينه : إذا مت ( بنصب تاء الخطاب ) فأنت بريء لا تصح ; لأنه كقوله إن دخلت الدار فأنت بريء .

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        26/صفر المظفر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے