021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈیوٹی کا وقت مکمل دینے مگر اسباق چند ملنے کی صورت میں تنخواہ کا حکم
81350اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

دار الافتاء جامعۃ الرشید سے کچھ عرصہ پہلے   خلا ف قانون  ٹرانسفر کے بارے میں ایک  فتویٰ  پوچھا تھا  جس کا نمبر 22/77811ہے،اس میں بتایا گیا تھا کہ " اگرآپ  نے اس دوسرے سکول  میں  ڈیوٹی کا مکمل وقت اسکول کو دیا ہو ۔۔۔تو اس مدت کی تنخواہ  آپ کے لیے حرام نہیں  ہوگی ،لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو پھر وہ  تنخواہ آپ کے لیے جائز نہیں"۔  

میں نے پورا وقت اسکول کو نہیں دیا  تھا؛  کیونکہ  اس دوران  میں   مدرسے  کی کتب بھی پڑھا تھا۔ صورتِ حا ل یہ تھی کہ مدرسے کے  سکول    کا نظم  مدرسے  کے نظم میں شامل تھا  ،یعنی صبح ساڑھے سات بجے  سے لیکر بارہ بجے تک  مدرسے اور سکول کے  پیریڈ یکے بعد دیگرے  ساتھ ساتھ چلتے تھے، مدرسہ  کے  ناظم اور مہتمم کے مشورے سے    میرے لیے یہ  ترتیب   طے ہوئی تھی کہ  میں چار پیریڈ عصری  علوم  کی کتب  بطور  سرکاری ٹیچر پڑھا تا تھا ،اور دو پیریڈ  مدرسے کی کتب پڑھاتا تھا ، جبکہ اصل  سکول(جہاں میری پہلی تقرری ہوئی تھی)  کے ڈیوٹی کا دورانیہ تقریباً  پانچ  گھنٹوں پر مشتمل  تھا،وہاں اس  دوران میں    روزانہ  اسلامیات کے پانچ پیریڈ پڑھاتا  تھا۔ نئی جگہ پر مدرسے کے نظم کے تحت  مجھے سکول کےچار پیریڈ دیے گئے،سکول کی باقی کتابیں  سکول  اور مدرسہ کے دیگر اساتذہ پڑھاتے تھے،تو   چار مضامین پڑھانے  کو  ڈیوٹی کا مکمل دورانیہ   کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اجیرِ خاص اگر مدتِ عمل میں عمل کی جگہ پر حاضر اور عمل کے لیے دستیاب ہو تو وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے، اگرچہ مستاجِر اس سے مکمل وقت میں کام نہ لے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے ڈیوٹی کا مکمل وقت مدرسہ کے اسکول کو دیا تھا، ڈیوٹی کا پورا دورانیہ وہاں موجود رہتے تھے، البتہ منتظمین کی طے کردہ ترتیب کی وجہ سے صرف چار گھنٹے اسکول کے اسباق پڑھاتے تھے تو آپ نے اپنی ڈیوٹی پوری ادا کی ہے اور اس کی مکمل تنخواہ آپ کے لیے جائز ہے۔

حوالہ جات
المجلة (ص: 82):
 مادة 425: الأجير الخاص يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل، ولا يشترط عمله بالفعل، ولكن ليس له أن يمتنع من العمل، وإذا امتنع فلا يستحق الأجرة.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 386-387):
(شرح  المادة 425 ) : ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل، ويكون قادرا، وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل . …….. وإنما لا يشترط عمل الأجير الخاص بالفعل كما ورد في هذه المادة؛ لأنه لما كانت منافع الأجير مدة الإجارة مستحقة للمستأجر، وتلك المنافع قد تهيئت، والأجرة مقابل المنافع، فالمستأجر إذا قصر في استعمال الأجير، ولم يكن للأجير مانع حسي عن العمل كمرض ومطر فللأجير أخذ الأجرة ولو لم يعمل ( الزيلعي ) .

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        28/صفر المظفر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے