021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسکول کے معلم القرآن کا ہیڈ ماسٹر کے کہنے پر اسلامیات پڑھانے کا حکم
81357اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

میں سرکاری اسکول میں معلم القرآن ہوں ، سرکاری ہدایت کے مطابق میری اصل ذمہ داری پہلی  جماعت سے آٹھویں جماعت تک  قرآن کریم کو ناظرہ کے ساتھ  پڑھانا  ہے، لیکن میں روزِ اول سے اب تک   ناظرہ کی بجائے  پانچویں  جماعت تک  اسلامیات کی کتاب پڑھا تا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ ہیڈ ماسٹر نے مجھے کہا ہےکہ آپ اسلامیات کی کتاب  اور اس کے ساتھ نماز  ،ادعیہ ماثورہ وغیرہ بچوں کو  پڑھا ئیں؛ کیونکہ اکثر بچے سکول آنے سے پہلے  اور سکول سے جانے کے بعد دونوں  وقت مدرسہ جاتے ہیں، وہا ں  یہ بچےناظرہ سیکھ لیتے  ہیں، سکول میں دوبارہ  ناظرہ پڑھانے کی ضرورت نہیں  رہتی۔ نیز  اکثر بچے  ایسے ہیں  جنہوں نے ابھی تک نورانی قاعدہ نہیں پڑھا یا ابھی پڑھ رہے  ہیں ،لہٰذا ان حالا ت میں   ان  کو  ناظرہ پڑھانا مشکل ہے۔ جن بچوں نے قاعدہ پڑھا ہے ، وہ اگر چہ  ناظرہ پڑھ سکتے ہیں ، لیکن ہیڈ ماسٹر کے بقول ان کو پڑھانے کی ضرورت نہیں  ہے ،تو کیا ایسی صورت میں ناظرہ کی بجائے اسلا  میات کی کتاب  اور دیگر ادعیہ ماثورہ پڑھانا شرعاً جائز ہے یا  نہیں ؟ اگر  جائز نہیں ہے تو اب تک ناظرہ کی بجائے اسلامیات کی کتاب  جو پڑھا چکا ہوں، اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ اسلامیات کا الگ سے استاذ ہوتا ہے، لیکن ہیڈ ماسٹر مجھ سے کہتا ہے کہ وہ عام آدمی ہے، دعائیں وغیرہ صحیح نہیں پڑھاسکتا تو آپ پڑھائیں۔ میرے رولز آف سروس میں قاعدہ کا نہیں لکھا، قرآن پڑھانے کا لکھا ہے، لیکن جن بچوں نے قاعدہ نہیں پڑھا، ان کو سکول میں قاعدہ بھی نہیں پڑھایا جاتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب اسلامیات کا استاذ الگ سے موجود ہے تو ہیڈ ماسٹر کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسلامیات کا مضمون آپ کو دے، اور آپ کا تقرر جس مضمون کے لیے ہوا ہے، اس کو ختم ہی کردے۔ اسلامیات کا مضمون پڑھانا اسلامیات کے استاذ کی ذمہ داری ہے، اگر اس میں واقعتًا اسلامیات پڑھانے کی صلاحیت نہیں تو اس کے لیے یہ ڈیوٹی جائز نہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بچے مسجد میں ناظرہ پڑھتے ہیں، اس لیے اسکول میں پڑھانے کی ضرورت نہیں تو یہ درست نہیں؛ کیونکہ ضروری نہیں کہ تمام بچے مسجد میں پڑھنے کے لیے جاتے ہوں، اگر بالفرض جاتے بھی ہوں تب بھی وہ ان کا ذاتی عمل ہے، اسکول میں آپ کی اور طلبا دونوں کی ذمہ داری ہے کہ قاعدہ اور ناظرہ کے گھنٹوں میں قاعدہ اور ناظرہ ہی پڑھیں اور پڑھائیں۔ جن بچوں نے قاعدہ نہیں پڑھا،ا ن کو قاعدہ پڑھانا بھی قرآن پڑھانے والے استاذ کی ذمہ داری میں شامل ہے؛ کیونکہ وہ قرآن پڑھنے کا مقدمہ ہے، اس کے بغیر قرآن نہیں پڑھا جاسکتا۔ البتہ اگر ناظرہ اور قاعدہ پڑھانے کے ساتھ آپ اپنی طرف سے بچوں کو ادعیۂ ماثورہ بھی پڑھانا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ آپ کو اس کا ثواب ملے گا۔  

اب تک  ہیڈ ماسٹر کے کہنے پر آپ نے اسلامیات کی جو کتابیں پڑھائی ہیں، اس کی تنخواہ کو حرام نہیں کہا جائے گا، لیکن ایسا کرنا درست نہیں تھا، آئندہ کے لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

حوالہ جات
۔

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        28/صفر المظفر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے