021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پھل ظاہر ہونے سے پہلے باغ فروخت کرنےسے متعلق احکام
81347خرید و فروخت کے احکامزمین،باغات،کھیتی اور پھلوں کے احکام و مسائل

سوال

حضرات مفتیان کرام! ایک مسئلہ کے بارے میں ہمارےیہاں علماء کے درمیان اختلاف ہوا۔اس کے بارے میں تفصیل مطلوب ہے۔ وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور و عند الناس مشکور ہوں۔

مسئلہ: پھول یعنی بور کی حالت پھلوں کی بیع جائز ہےیا نہیں ؟اس بارے میں احسن الفتاوی صفحہ نمبر489جلد نمبر6میں یہ عبارت مذکور ہے:

"چنانچہ آم اور اس قسم کے دوسرے پھلوں کی بیع درختوں پر پھول آنے کے بعد ہوتی ہے اگر بعض ثمرظاہر ہو چکاہوتو کوئی اشکال نہیں اور اگر ثمر بالکل ظاہر نہ ہو تو یہ بیع الاثمار نہیں بلکہ بیع الازھار ہے اور یہ ازھار مال متقوم اورمنتفع به للدواب بل لبعض حاجات الناس بھی ہے،بالفرض اگر فی الحال منتفع بہ نہ بھی ہو تو ثانی الحال منتفع بہ ہے کما نقل العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى عن الامام ابن الھمام رحمہ الله تعالى في صحة بيع الثمار بعد البروزقبل ان تكون منتفعابها۔"

اور جامعۃ الرشید کراچی اس مسئلہ کے بارے استفتاء(فتوی نمبر73489/60)لیا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا:

" جب درخت پر صرف پھول ظاہر ہوئے تو انکی خرید وفروخت درست ہے،لیکن اس صورت میں پھلوں کی بیع نہیں بلکہ پھولوں کی بیع کرنی چاہئے اور ظاہر ہے کہ اس کی قیمت اس صورت سے کم ہو گی جب باغ میں پھل ظاہر ہونے کے بعد پھلوں کی بیع ہوتی ہے۔"

 نیز فتاوی عثمانی صفحہ نمبر 110 جلد نمبر3 میں یہ عبارت مذکورہ ہے ۔

 "البتہ جب ازهار کا ظہور ہوگیا تو ازھار کی بیع من حیث الازھار کی واقعی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور اس کا ذکر تکملہ فتح الملہم میں بھی کیا گیا ہےاور خود فقہاء حنفیہ صاحب ہدایہ وغیرہ نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔

ان تینوں عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پھلوں کی بیع پھول کی صورت میں جائز ہے، لیکن بیع پھول کی ہوگی ۔

اس پر سوال یہ ہے کہ چلو مان لیا کہ بیع پھول کی ہے جبکہ جتنے خریدنے والے ہیں یا بیچنے والےہیں وہ بیع کرتے وقت پھول کی بیع نہیں، بلکہ وہ پھلوں کی بیع کر رہے ہوتے ہیں ،کیونکہ ہم نے آج تک نہ سنااور نہ دیکھا کہ کوئی پھول کی بیع کر رہا ہو جو بھی کرتا ہےوہ پھل کی بیع کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اسکی قیمت زیادہ لگاتے ہیں اور جتنی قیمت طے ہوتی ہے اتنی قیمت پھول کی تو ہوتی ہی نہیں، بلکہ وہ پھل کی قیمت ہوتی ہے ،تو اگر ان کی اس صورت حال کو دیکھا جائے تو وہ معدوم کی بیع کر رہے ہیں کیونکہ پھل اس وقت موجود ہی نہیں ہوتا ۔تو مفتیان کرام سے سوال یہ ہے کہ فتاوی کی ان عبارتوں کے مطابق جب کہ یہ بیع پھول کی ہے تو اس کے ضمن میں پھلوں کی بیع ہو جائیگی یا نہیں؟ بینوافلتوجروا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پھول آنے پر باغات کی خریدوفروخت جائز ہے، کیونکہ پھول خود قابلِ انتفاع ہیں اور قابلِ انتفاع چیز کی خریدوفروخت جائز ہے۔باقی  پھول چونکہ پھل کی اصل ہیں، کہ پھولوں سے ہی پھل بنتے ہیں،اس لیے خریدوفروخت کے وقت پھل بالکل ظاہرنہ ہوئے  ہوں،  صرف پھول  ہی ہوں، تو بھی پھولوں کو بھی بالکلیہ معدوم نہیں کہا جاسکے گا، بلکہ پھولوں کے ضمن میں پھلوں کو بھی حکما موجود مان لیا جائے گااوراوصاف بیان کرکے یا اشارہ کے ذریعہ تعیین  سے مبیع معلوم ہونے کی بنیاد پر شرعاً اس خریدوفروخت کو  درست قرار دیا جائے گا۔

پھولوں کی قیمت زیادہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ عام پھول نہیں ہوتے، بلکہ یہ خاص اور قیمتی پھول ہوتے ہیں جو مستقبل میں عمدہ پھل پیدا ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں، اس لیے ان پھولوں کی قیمت زیادہ لینا جائز ہے۔ شریعت میں مقاصد کے بجائے ،  معاملےکی شرائط اور ارکان کو مدِ نظر رکھ کر شرعاً اس کی صحت یا فساد کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ فقہاء کرام نے بازنجان وغیرہ کے پودے خریدنے کی صورت میں ،ان میں بعد میں  بننے والے پھل اور سبزیوں کو بھی حکما موجود مانا ہے ،نیز پھولوں کی خریدوفروخت کے وقت کچھ پھل  نکل چکے ہوں،توبھی علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے علامہ شمس الائمہ  حلوانی اور علامہ فضلی رحمہ اللہ کے حوالے سے خریدوفروخت کے جواز کا قول نقل کیا ہے اور اس صورت کے جواز کی یہی علت بیان کی ہے کہ یہاں موجود پھل کو اصل اور بعد میں پیدا ہونے والے پھلوں کو تابع قرار دیا جائےگا۔

حوالہ جات
۔ فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 291):
(ولو أثمرت بعد القبض يشتركان فيه للاختلاط، والقول قول المشتري في مقداره) مع يمينه (لأنه في يده وكذا في) بيع (الباذنجان والبطيخ) إذا حدث بعد القبض خروج بعضها اشتركا لما ذكرنا. وكان الحلواني يفتي بجوازه في الكل، وزعم أنه مروي عن أصحابنا، وكذا حكي عن الإمام الفضلي وكان يقول: الموجود وقت العقد أصل وما يحدث تبع نقله شمس الأئمة عنه ولم يقيده عنه بكون الموجود وقت العقد يكون أكثر بل قال عنه: اجعل الموجود أصلا في العقد وما يحدث بعد ذلك تبعا وقال: استحسن فيه لتعامل الناس، فإنهم تعاملوا بيع ثمار الكرم بهذه الصفة، ولهم في ذلك عادة ظاهرة وفي نزع الناس من عادتهم حرج، وقد رأيت رواية في نحو هذا عن محمد - رحمه الله - وهو بيع الورد على الأشجار فإن الورد متلاحق، ثم جوز البيع في الكل بهذا الطريق وهو قول مالك - رحمه الله -
3۔البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 325):
إذا حدث بعد القبض خروج بعضها اشتركا وكان الحلواني يفتي بجوازه في الكل وزعم أنه مروي  عن أصحابنا وهكذا حكي عن الإمام الفضلي وكان يقول الموجود وقت العقد أصل وما يحدث تبع له نقله شمس الأئمة عنه، ولم يقيده عنه بكون الموجود وقت العقد يكون أكثر بل قال عنه اجعل الموجود أصلا في العقد وما يحدث بعد ذلك تبعا، وقال استحسن فيه لتعامل الناس، فإنهم تعاملوا بيع ثمار الكرم بهذه الصفة ولهم في ذلك عادة ظاهرة وفي نزع الناس عن عاداتهم حرج، وقد رأيت في هذا رواية عن محمد وهو في بيع الورد على الأشجار، فإن الورد متلاحق، ثم جوز المبيع في الكل بهذا الطريق وهو قول مالك۔
4۔مجلة الأحكام العدلية (ص: 42) فصل: فيما يجوز بيعه ومالا يجوز:
(المادة 207) ما تتلاحق أفراده يعني أن لا يبرز دفعة واحدة بل شيئا بعد شيء كالفواكه والأزهار والورق والخضراوات إذا كان برز بعضها يصح بيع ما سيبرز مع ما برز تبعا له بصفقة واحدة.
5۔شرح المجلة للخالد الإتاسي (ج:1ص:99):
إن بيع الباذنجان والبطيخ وأشباههما  له حكم بيع الثمر الذي تتلاحق أفراده يعني أنه صحيح في الموجود، وفي المعدوم تبعا للموجود، على ماأفتى به شمس الأئمة الحلواني ومشت عليه هذه المجلة، ولفظ الخضروات في هذه المادة يشير إلى ذلك۔ لكن لا يخفى أن المعدوم المتظر حدوثه من ذلك لا يكون إلا أكثر من الموجود بأضعاف وقدمنا عن جامع الفصولين وغيره أن الأكثر لا يتبع الأقل خلافا لما قدمنا عن البحر تبعا لصاحب الفتح من أن الحلواني لم يقيده بكون الموجود أكثر۔
6۔فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 259) :                          
(قوله والأعواض المشار إليها) سواء كانت مبيعات كالحبوب والثياب أو أثمانا كالدراهم والدنانير (لا يحتاج إلى معرفة مقدارها في جواز البيع) فإذا قال: بعتك هذه الصبرة من الحنطة أو هذه الكورجة من الأرز والشاشات وهي مجهولة العدد بهذه الدراهم التي في يدك وهي مرئية له فقبل جاز ولزم؛ لأن الباقي جهالة الوصف: يعني القدر وهو لا يضر، إذ لا يمنع من التسليم والتسلم لتعجله كجهالة القيمة لا تمنع الصحة

سیدنویداللہ

دارالافتاءجامعۃالرشید

29/صفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے