021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لکی ڈرا کےذریعہ مختلف انعامات کا اعلان
81391سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

سوال:تور مارکٹ ریاض میں  "عدینہ" کے ایک پر فیوم کی دکان ہے ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک مخصوص دورانیہ کیلئے  ایک (lucky draw) کا اعلان کرتے ہیں کہ اس مخصوص  دورانیہ میں جو بھی یہاں سے پر فیوم یا آئل خریدے گا اس کا ٹوکن اور رسید ہمارے پاس جمع ہو نگے پھر اس دورانیہ کے ختم ہونے کے بعد قراندازی ہو گی جن دس آدمیوں کے نام شروع میں  آئیں گے ان کو انعام ملے گا پہلے نمبر پرآنے والے کو دس ہزار ریال ملیں گے، دوسرے نمبرپرآنے والے کو دو عمرے اورتیسرےنمبر پر آنے والوں کو ایک عمرہ کرایا جائے گا، جبکہ باقی سات آدمیوں کو پانچ پانچ سور یال ملیں گے۔

میں نے خود ان سے رابطہ کر کے  پوچھا تھا اور یہ تفصیلات معلوم کی تھی،انہوں نے یہ بھی بتایاتھا کہ ہمارا اس  سے مقصوداپنی دکان اور کمپنی کی  شہرت ہوتی ہے اس طرح   پیکج اور (lucky draw)  لگانے سے خریداری زیادہ ہوتی ہے۔

ان تفصیلات کے بعد  اب میرے دو  سوالات  ہیں :

سوال :1۔کیا اس طرح کاروبار کرنا  جائز ہے ؟

سوال  :2۔کیا میں انعام حاصل کرنے کی بناء پر اس دکان سے خریداری کر سکتا ہوں کہ شاید  قرعہ میں میر انام نکل آئے؟برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں  اگردکاندارپرفیوم یاآئل کی وہی قیمت رکھتےہیں ،جو عام  قیمت چل رہی ہے،اس میں کوئی اضافہ وغیرہ نہیں کرتے،اسی طرح دکاندارکی طرف سےادائیگی بھی یقینی ہوتی ہے،یعنی  جب کسٹمر نےدکان سےکچھ خریداتواس کےمقابلےمیں اس کو اس کی مطلوبہ چیز  واقعتامل جاتی ہو،اس کےبعدانعامات کااعلان کیاجاتاہےتویہ صورت دکاندارکی طرف سےہدیہ اورانعام کی صورت ہے،البتہ انعامات کی تقسیم قرعہ اندازی کےذریعہ کی جاتی ہے،اس لیےیہ صورت  شرعاجائزہوگی،دکاندارکااس طرح کرنابھی جائزہے،اورانعام حاصل کرنےکےلیےدکان سےخریداری بھی جائزہوگی۔

اوراگرپرفیوم یاآئل کو اضافےکےساتھ بیچتےہوں ،یاپھر پرفیوم یاآئل واقعتا نہ بیچےجاتےہوں،بلکہ صورت یہ ہوتی ہوکہ  کسٹمرنےمثلا 1000 روپےدیےاوراس کےمقابلےمیں دکان سےکچھ لیانہیں،بلکہ اس کو یہ لالچ ہوکہ اس 1000کےبدلےیاتوریال ملیں گےیاپھرعمرہ ہوجائےگاتویہ تملیک علی الخطریعنی واضح طورپر قمارکی صورت ہےکہ پیسےلگائےجائیں ،اوریہ یقین نہ ہوکہ ان کےبدلےکچھ ملےگایانہیں اور ملےگا توکتنا کچھ ملےگا یہ صورت واضح طورپر قماریعنی جوے کی صور ت ہوگی اورناجائز ہوگی۔

اس کی واضح مثال یہ ہوگی کہ اگرکوئی کہےکہ سب لوگ میرےپاس دودوسوروپےجمع کراو ،اس کےبعد قرعہ اندازی کرونگا ،جس کانام نکلا اس کو ایک لاکھ روپےدونگا تویہ صورت واضح طورپر جوےکی صورت ہے،لہذاجائزنہیں ہوگا،سوال میں ذکرکردہ صورت میں چونکہ یہ خرابی نہیں پائی جاتی ،لہذا شرعادرست ہے۔

(بحوالہ اسلام اورجدیدمعاشی مسائل (78/4

حوالہ جات
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة:90)
"بحوث فی قضايافقهية معاصرة "2 /239:وبما أن حقيقة الجائزة أنهاهبةبدون مقابل ، فانها ليست من عقود المعاوضة، وانمامن قبيل التبرعات، فمن شروط جوازها أن تکون تبرعاً من المجيز بدون أن يلتزم المجاز بدفع عوض مالی مقابل الجائزة۔۔۔ الجوائز علی شراء المنتجات۔۔۔۔۔وإن حکم هذه الجوائز أنها تجوز بشروط: الشرط الاول: أن يقع شراء البضاعة بثمن مثله، ولايزاد فی ثمن البضاعة من أجل احتمال الحصول علی الجوائز وهذا لأنه إن زاد البائع علی ثمن المثل فالمقدار الزائد إنمايدفع من قبل المشتری مقابل الجائزة المحتملة فصارت الجائزة بمقابل مالی فلم يبق تبرعا وإن هذا المقابل المالی إنماوقع المخاطرة فصارت العملية قمارا،أما إذا بيعت البضاعة بثمن مثلها، فإن المشتری قد حصل علی عوض کامل للثمن الذی بذله، ولم يخاطر بشئ فالجائزة التی يحصل عليها جائزة بدون مقابل، فيدخل فی التبرعات المشروعة۔
"البحر الرائق "7/ 91:وأما القمار فقدمنا أنه الميسر وفي القاموس قامره مقامرة وقمارا فقمره كنصره وتقمره راهنه فغلبه وهو التقامر ا هـو ذكر النووي أنه مأخوذ من القمر لأن ماله تارة يزداد إذا غلب وينتقص إذا غلب كالقمر يزيد وينقص۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

03/ربیع الاول    1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے