021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہر کے ساتھ نقدی زمین وغیرہ کا مطالبہ کرنا
81575طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں  علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں ایک آدمی نے اپنی لڑکی کا رشتہ کسی کو دیا اس شرط پر کہ بنامِ لبّ بزبان براہوی آپ سے شادی کرتے وقت پانچ لاکھ روپے ،پانچ تولہ سونا ایک زمین اپنی لڑکی کے لیے لیں گے، شادی کاخرچہ الگ لیں گے ۔جبکہ لبّ یازمین باپ لیکر خود استعمال کرتاہے ۔برسم بلوچی 20 لاکھ روپے،  تولہ 40 سونا بیست سور(تولہ) دستی 5، لاکھ دستی لڑکی (یعنی  یہ ہر صورت دینا )کے لئے اور شادی کاخرچہ الگ وصول کریں گے ۔ یہ بیس لاکھ چالیس سونایہ میری لڑکی کے حق مہرہیں ۔ عام طور پر حق مہر نکاح پڑھنے کے وقت مقرر کیا جاتا ہے۔آ یا غریب لوگون پر رسماً اتناحق مہریا لبّ ڈالناشر عأعرفاً جائز ہے یاحرام ہے؟ ان کا لینایا ان کو حق مہر کہنایا جہیز کا نام دینا اور دلیل یہ دینا کہ حضور پاک ﷺنے اپنے ازواج مطہرات كو 400 دينار حق مہردیاہے۔ آیا عام انسان کے حق مہر کے وقت خالات امہات وغیرہ کے حق مہر کو دیکھا جائےگایانہیں ؟شرعا کیساہے ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جوب عنایت فرمائیں۔

تنقیح:   بلوچی زبان میں لبّ سے مراد وہ نقدی،زیورات یا زمین ہوتی ہے جو لڑکی کے والد لڑکے والوں سے بچی دینے کی وجہ سے لیتا ہے ، اور یہ مہر کا حصہ نہیں ہوتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے موقع پر بدل اور عوض کے طور پر اگر کسی چیز کو لازم قرار دیا ہے تو وہ صرف مہر ہے، جو کہ شرعاً بیوی کا حق ہے، شوہر پرصرف مہر کی ادائیگی شرعاً ضروری ہوتی ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی کا مہر دس درہم سے کم یا سرے سے مہر ہی متعین نہ کیا جائے تو بھی شوہر پر مہر  مثل  کی ادائیگی لازم ہے،مہر کی کم از کم مقدار شریعت نے دس درہم (30.618 گرام چاندی) مقرر کی ہے، زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت نے متعین نہیں کی، باہمی رضامندی سے مہر کی جو مقدار طے ہوجائے شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، البتہ شریعت نے مہر میں بہت زیادہ زیادتی کرنے کو ناپسند فرمایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم پڑے، مہر میں سہولت ملحوظ رکھنے کو شریعت نے اس لیے پسند فرمایا تاکہ معاشرہ بے حیائی اور فحاشی سے محفوظ رہے اور ضرورتِ انسانی پورا کرنے کا حلال راستہ نوجوانوں کے لیے آسان سے آسان تر رہے،  صورت مسئولہ میں لڑکےکے خاندان والوں سے مہر کے علاوہ اضافی رقم،سامان  یا سونے وغیرہ کا مطالبہ کرنا جو عرف میں لڑکے پر لازم نہ ہو،جائز نہیں اس لیے کہ شرعا کسی کا مال اس کی رضامندی اور خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا حلال نہیں۔

اگر لڑکی کے خاندان والے لڑکے یا اس کے خاندان والوں سے مہر کے علاوہ اضافی رقم، سامان یا سونا چاندی کا مطالبہ کریں تو ایسی صورت میں یہ اضافی رقم یا سامان لینا رشوت کے مترادف ہوگاجو کہ جائز نہیں۔ تا ہم اگر لڑکی کے خاندان والے شادی کی بنیادی ضروریات کی خاطر کچھ سامان وغیرہ کا مطالبہ کریں جو کہ عرف عام میں مہر کا حصہ شمار کیا جاتا ہو تو شرعا اس کے لینے کی گنجائش ہے۔مہر کے علاوہ کسی قسم کا مال  نقدی، سونا یا زمین وغیرہ کی صورت میں نکاح کے موقع پر شریعت نے لازم نہیں کی ہے۔

حوالہ جات
سنن البيهقي الكبرى (6/ 96):
عن بن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم خطب الناس في حجة الوداع فذكر الحديث وفيه لا يحل لامرىء من مال أخيه إلا ما أعطاه من طيب نفس ولا تظلموا ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 156):
(أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة. (قوله عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة بزازية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 130):
ما هو معروف بين الناس في زماننا من أن البكر لها أشياء زائدة على المهر.....وأنت خبير بأن هذه المذكورات تعتبر في العرف على وجه اللزوم على أنها من جملة المهر، غير أن المهر منه ما يصرح بكونه مهرا ومنه ما يسكت عنه بناء على أنه معروف لا بد من تسليمه، بدليل أنه عند عدم إرادة تسليمه لا بد من اشتراط نفيه أو تسمية ما يقابله كما مر، فهو بمنزلة المشروط لفظا فلا يصح جعله عدة وتبرعا،

محمد جمال ناصر

دار الافتاءجامعہ الرشیدکراچی

12/ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمال ناصر بن سید احمد خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے