021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق ثلاثہ کاحکم
81404طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں نے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہیں کیاتھااورنہ ہی میرے دل ودماغ میں طلاق لینے کی بات تھی ،جب میں نومبر میں اپنے سسرال گئی تو میری ساس مجھے گالیاں دے رہی تھی کہ تیرا بیٹا حرامی ہے اورتیراگندہ خون ہے اس بات پر میں نےیہ کہہ دیا کہ" جب بسانا نہیں تھا تو میکے  سے لائے کیوں؟مجھے وہی چھوڑدیتے ،میں اڑھائی سال سے اپنے میکے میں رہ رہی تھی "کیا ان الفاظ سے طلاق بنتی ہے؟میں قرآن کی قسم کھاتی ہوں کہ میں نے کبھی طلاق دینےکا مطالبہ نہیں کیا، کیا جھوٹ میں بھی طلاق ہوجاتی ہے؟ جب میرے شوہر نے طلاق کا پیپرکسی دوسرے بندے سے بھجوایا تو میری دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی،میرے میکے والوں اورسسرال والوں نے میری زندگی پہلے سے طے کررکھی ہے وہ مجھے جادو کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں،میکے اورسسرال دونوں  گھروں میں میرے ساتھ برا سلوک رکھا جاتاہے ،کبھی ہاتھ  پاؤں کی جان نکال دی جاتی ہے اورکبھی ان کوسن کردیاجاتاہے ،کبھی دماغی دورے پڑوائے جاتے ہیں ،کبھی دماغ کا ایک حصہ سن کردیاجاتاہے ،کبھی شہوت دلوائی جاتی ہے،میری پوری باڈی کا کنٹرول ان کےہاتھ میں ہے، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں کہ جادومجھ پر اثر نہ کریں،جب طلاق کا فیصلہ ہوا تو مغرب کا وقت تھا، میرابھائی کہہ رہاتھاکہ انہوں نے مدیحہ کے اوپراورمیرے بھائی کےاوپرچوری کا کیس کردیاتھا، اس لیے ہم مغرب کے ٹائم طلاق لینے آگئے ،جبکہ میں چھ ماہ سے اپنے سسرال کے ہاں رہ رہی تھی، جب اس بندے نےمجھے طلاق نامہ پکڑوایا تھاتو میں نے نہیں پڑھا تھا بس اتنا پتہ تھاکہ اس نے مجھے طلاق دیدی ہے ،میرا کزن کہہ رہاتھا کہ اس نے طلاق دیدی  ہے،اب تیرا یہاں کھڑا رہنا حرام ہے،میری دماغی حالت دورے پڑنے کی وجہ سے خراب ہوچکی تھی ،میں کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی ،میں نے اپنے سسرال میں کچھ نہیں بولا،کیونکہ میرا دماغ گھوم گیا تھا وہ مجھے میکے لیکرآئے ،جب میں نے اس کے بعد طلاق نامہ پڑھا تو اس میں لکھاتھا میرے مطالبہ سے تنگ آکر اس نےمجھے سہ بارطلاق دیدی، میں نے گھر میں کہاکہ میں نے طلاق نہیں مانگی تھی ،میں قرآن اٹھاکر بھی کہہ سکتی ہوں ،میں نے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا تھا ،وہ کہہ رہے ہیں کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اگلے دن خود کچہری جاکر سائن کرآئے،نہ مجھے لیکر گئے اورنہ میرے سے کسی نے پوچھاکہ طلاق تونے مانگی تھی؟ پڑھ کر کسی گواہ کو طلاق نامہ نہیں سنایاگیا بس میں نے پڑھااورخاموش رہی ،کیا خاموش رہنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟کوئی گواہ نہیں بول سکتاکہ میں نے قبول کیاتھا،قرآن کی قسم اٹھاکر کہتی ہوں کہ مجھے غلط فہمی تھی ،میں سمجھی کہ منصورنے مجھے طلاق دیدی ہے اس لیے مین کیا کرسکتی ہوں ،جبکہ تحریرکچھ اورتھی ، میں یونین کونسل گئی نہیں گئی ،خود ہی میرے بیٹے کا خرچہ 4000چارہزارماہوارطے کردیا،ابھی  طلاق نامہ رجسٹرڈنہیں ہوا، گھر میں مجھ پرتشددکرکے مارپیٹا گیا اورجادوکرکے پانچ بچوں کے باپ سے شادی کروادی ،آیا یہ دوسرا نکاح میرا ٹھیک ہے؟ کیونکہ جب میں نے مطالبہ ہی نہیں کیا تھا تو طلاق کیسے واقع ہوگئی؟ میرا دل قبول نہیں کررہاہے ،عورت کی کوئی بھی نہیں سنتا،میرے ماں، باپ ،بہن اور بھائی سب ملے ہوئے ہیں وہ کہتے تھے اپنی نہ کر، ہم جو کہیں اس پر عمل کر،کٹھ پتھلی کی طرح ،آج بھی باپ میرے اوپر تھوکتاہے اورمارتاہے ،یہ سب میرے اوپر اثرات ہیں ،اس گھر میں اثرات ہیں ،صرف میرے ساتھ مکرہورہاہےکہ میں صرف کٹھ پتھلی کی طرح زندگی گزاردوں ، مہربانی کرکے میرے لیے کوئی راستہ نکالیں،طلاق کا مسئلہ بہت سنگین ہے،میں بہت پریشان ہوں کہ آیا جو شروع الفاظ ہیں ان سے طلاق کا مطالبہ ہوتاہے؟اگرطلاق واقع نہیں ہوئی تو میں کیا کروں شریعتِ اسلامی کی رو سے ؟میرے میکے اورکے گھر والوں نے میری زندگی بہت مشکل کردی ہے،قرآن اٹھاکرمیں یہ کہہ سکتاہوں کہ میں نے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا تھا،میرا ساتھ دینے والاکوئی نہیں ہے،دوسرانکاح ٹھیک ہے کیا؟کوئی حل اورراستہ دکھائیں اورجادوکا توڑبھی بتادیں۔

عدالت میں سب کچھ چلتاہے مفتی صاحب!جھوٹ بھی چلتاہے اس کو نہ دیکھیں اوراسلامی شریعت کیاکہتی ہے اس میں میری مددکریں، اس نے اپنے منہ سے طلاق نہیں دی، صرف پرچہ دوسرے آدمی کےذریعے بھیجوایاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زبانی کی طرح تحریری طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے خواہ خاوند خود لکھے یا کسی سے لکھوائے نیز طلاق کے لیے بیوی کا مطالبہ کرنا،قبول کرنا اورراس پر اس کا راضی ہونا ،رجسٹرڈ کراناشرعاً  کوئی ضروری نہیں ہے،اسی طرح خاوند جھوٹ بھی بولے کہ بیوی نےطلاق کا مطالبہ کیاتھاجبکہ واقع میں بیوی نے مطالبہ نہ کیاہو اورشوہرنےطلاق دی ہوتو  تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا مسئولہ صورت میں آپ پر تین طلاقیں واقع ہوکرحرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی تھی اس کے بعد جو نکاح آپ کا دوسرے شوہر کے ساتھ ہوا ہے اگروہ آپ رضاء سے ہوا ہے اور عدت کے بعد ہوا ہے تو وہ منعقد ہوگیاتھا، اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔

اب آپ پہلےشوہر کی طرف تب ہی جاسکتی ہے اور ان سے نکاح تب ہی کرسکتی ہے جب دوسرا شوہردخول کے بعدآپ کوطلاق دیدےیاوہ فوت ہوجائے اورآپ کی عدت گزرجائے۔

ثبوت کے بغیر بلاوجہ کسی پر شک کرنا کہ اس نے مجھ پر جادوکیاہے اوراس بناء پراس سے بدظن ہونا شرعاً ٹھیک نہیں ہے،لہذااس طرح سے شکوک وشبہات سے اپنے کو بچاناچاہیے اورجادو وغیرہ کی توڑ کےلیےدیگرمسنون اذکارکےساتھ ساتھ آپ ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ یہ وظیفہ کر لیا کریں اور پھر پانی پر دم کر کے وہ پانی کھانے پینے میں استعمال کریں، اللہ کرم فرمائے گا۔

سورۃ الفاتحہ ایک مرتبہ،آیت الکرسی ایک مرتبہ،سورۃ الاخلاص ایک مرتبہ،سورۃ الفلق ایک مرتبہ،سورۃ الناس ایک مرتبہ،سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 102 میں سے : وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ. تین مرتبہ، اول آخر تین تین مرتبہ درود وسلام پڑھ کر پانی دم کر کے استعمال کریں ان شاء اللہ نجات مل جائے گی۔

حوالہ جات
وفی الدرالمختار:
"رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها." (کتاب الطلاق، الباب الثاني ، الفصل السابع،1/  379، ط: دار الفکر)
وفی الشامیة:
"وإن كانت ‌مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."
(کتاب الطلاق،مطلب في الطلاق بالكتابة،3/ 246، ط: سعید)
[البقرة: 230]
{ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ }
وفی احکام القرآن للشيخ ظفر احمد العثماني(رح):(۱/۵۰4)
﴿قوله تعالي: فان طلقها فلا تحل له حتي تنکح زوجا غيره﴾ اي انه اذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما ارسل عليها الطلاق مرتين فانها تحرم عليه حتي تنکح زوجا غيره اي حتي يطأها زوج اخر في نکاح صحيح.
فی سنن ابن ماجة (ج 2 / ص 152)باب من طلق ثلاثا في مجلس واحد 2024
حدثنا محمد بن رمح . أنبأنا الليث بن سعد ، عن إسحاق بن أبى فروة ،عن أبى الزناد ، عن عامر الشعبى  قال : قلت لفاطمة بنت قيس :حدثينى عن طلاقك . قالت : طلقني زوجي ثلاثا ، وهو خارج إلى اليمن فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .
سنن البيهقي الكبرى - (ج 7 / ص 339)
أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد الماليني أنا أبو أحمد عبد الله بن عدي الحافظ نا محمد بن عبد الوهاب بن هشام نا علي بن سلمة اللبقي ثنا أبو أسامة عن الأعمش قال كان بالكوفة شيخ يقول سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يرد إلى واحدة والناس عنقا وآحادا إذ ذاك يأتونه ويسمعون منه قال فأتيته فقرعت عليه الباب فخرج إلي شيخ فقلت له كيف سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول فيمن طلق امرأته ثلاثا في مجلس واحد قال سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق رجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يرد إلى واحدة قال فقلت له أين سمعت هذا من علي رضي الله عنه قال أخرج إليك كتابا فأخرج فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فقد بانت منه ولا تحل له حتى تنكح زوجا غيره قال قلت ويحك هذا غير الذي تقول قال الصحيح هو هذا ولكن هؤلاء أرادوني على ذلك.
رد المحتار - (ج 10 / ص 448)
وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - { فماذا بعد الحق إلا الضلال}  وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف.
الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.
وفی بدائع الصنائع - (3 / 187)
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل { فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره } وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
وفی أحكام القرآن للجصاص ج: 5  ص: 415
قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك".

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

  دارالافتاء جامعۃ الرشید

 22/03/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے