021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشر کا حکم( عشرزمین کامالک دےگایامزارع)
81408زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

مالک زمین نے ایک لاکھ کرایہ پر زمین کو ایک سال کے لیے اجارہ پر دیا، اجیر نے اس پر فصل اگائی جس پر پچاس ہزار کا خرچہ  آیا، فصل کی کل آمدن ایک لاکھ نوے ہزار آئی جس سے ایک لاکھ مالک زمین کو کرایہ دیا پچاس ہزار اخراجات ہوئے اور چالیس ہزار صافی نفع بچا۔  دوسرے سال بھی مذکورہ اجارہ جاری رہا، اور صافی نفع کچھ نہ بچا بلکہ بیس ہزار مزارع کو جیب سے بھرنے پڑے۔ اس فصل میں عشر کی تفصیل کیا ہوگی؟

  1. عشر مالک زمین دے گا یا مزارع
  2. تیار فصل جو کہ کاٹنے کہ قریب ہو مزارع یا تاجر نے مالک سے خریدا تو اس کا عشر کون دے گا؟ تاجر یا مالک؟
  3. عشر کل آمدنی پر ہوگا یا صافی نفع پر؟
  4. نقصان کی صورت میں عشر کی کیا تفصیل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو زمین سال کے اکثر حصے میں قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے اس میں عشر یعنی کل پیداوار کا دسواں حصہ (دس فی صد) واجب ہو تا ہے، اورجو زمین مصنوعی آب رسانی کے آلات و وسائل مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے سیراب کی جائے تو اس میں نصف عشر یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ (پانچ فی صد) واجب ہو تا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ کھیتی کی تیاری میں جو اخراجات ہوتے ہیں، مثلاً: آب رسانی، مزدوری، کھاد وغیرہ انہیں آمدنی سے منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ مجموعی پیداوار میں سے عشر نکالنا ضروری ہو گا۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مزارع کو پہلے سال  انیس ہزار (جو ایک لاکھ نوے ہزار کا عشر بنتا ہے) اور دوسرے سال تیرہ ہزار(جوکہ ایک لاکھ تیس ہزار کا عشر بنتا ہے) روپے عشر میں نکالنا واجب ہے۔ اب بالترتیب سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

  1. مزارع پر عشر نکالنا واجب ہے۔
  2. فصل پکنے سے پہلے عشر واجب نہیں ہوتا،  لہٰذا اگر تاجر نے پکنے سے پہلے خریدا تو تاجر پر عشر نکالنا واجب ہےاور اگر پکنے کے بعد خریدا تو بیچنے والے یعنی مالک پر عشر نکالنا واجب ہے۔
  3. کل آمدنی پر عشر نکالنا واجب ہے۔
  4. عشر کا تعلق خارج(زمین سے نکلنے والی فصل) سے ہےچاہے نفع کے ساتھ ہو یا نقصان کے ساتھ، لہٰذا نقصان کی صورت میں بھی عشر کی ادائیگی واجب ہے۔
حوالہ جات
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 216):
(قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما ‌يحتاج ‌إليه ‌في ‌الزرع لإطلاق قوله - عليه الصلاة والسلام - «فيما سقته السماء العشر وفيما سقي بالسانية نصف العشر» ؛ ولأنه - عليه الصلاة والسلام - حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤن فلا معنى لرفعها هذا قيد لمجموع العشر ونصفه كما لا يخفى.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 333)
ولو باع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري ولو بعده فعلى البائع
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 334)
والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ
النهر الفائق شرح كنز الدقائق (1/ 455)
تتميم: أجر أرضه فالعشر على المؤجر عنده. وقالا: على المستأجر
الدر المختار مع رد المحتار: (334/2، ط: دار الفکر)
والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ
(قوله: والعشر على المؤجر) أي لو أجر الأرض العشرية فالعشر عليه من الأجرة كما في التتارخانية وعندهما على المستأجر قال في فتح القدير: لهما أن العشر منوط بالخارج وهو للمستأجر وله أنها كما تستنمى بالزراعة تستنمى بالإجارة فكانت الأجرة مقصودة كالثمرة فكان النماء له معنى مع ملكه فكان أولى بالإيجاب عليه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

21/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے