021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
28.اٹھائیس سال کے بعد زمین پر دعوی کرنے کا حکم
81438دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

فضل ولی نے 1980ء میں مقام ملو گہ گور چہ میں20کنال  زمین خریدی، 1984ء میں فضل ولی نے اپنے ایک رشتہ دار سے کہا کہ ہماری  زمین کے ساتھ متصل چھ کنال زائد زمین ہے،  آپ اس کی قیمت ادا کر کے مالک سے خرید لیں ، مگر اس رشتہ دار نے معذرت کر کے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میں نہیں خرید سکتا، چنانچہ فضل ولی نے آ ٹھ ہزار دو سو 8200 روپے ادا کرکے وہ زمین خرید لی،  دو دن کے بعد اس رشتہ دار نے فضل ولی سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ اس زمین کے خرید نے کا  میرا ارادہ  تھا،  آپ نے کیوں خریدی ہے؟ فضل  ولی نے کہا: کہ اگر آپ کو زمین کی ضرورت ہے تو وہ قیمت آپ مجھے  دے دیں اور زمین آپ لے لیں، چنانچہ شخص مذکور نے وہ ر قم 8200 روپے فضل ولی کو دےکرزمین خرید لی،  ایک یا دو سال کے بعد اس شخص مذکور نے فضل ولی سے کہا ہے، اس مقام میں زمین لینے کی مجھےضرورت نہیں ہے ، آپ میری رقم 8200 مجھے واپس کر دیں، فضل ولی نے کہا کہ میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں، ہم کو شش کرتے ہیں کہ آپ کے لئے کہیں سے پیدا کر کے دے دیں،  اس عرصہ میں شخص مذکور مانسہرہ میں کسی معاملہ میں مقروض ہو گیا اور اس نے  فضل ولی سے کہا کہ میری و ہ ر قم مجھے دے دیں،  چنانچہ فضل ولی نے  وہ رقم اس کو دیدی، زمین فضل ولی کی ملکیت میں رہ گئی، انتقال پہلے بھی اسی کے نام  پر تھا۔ ۲۸ سال تک شخص مذ کور زندہ رہا،  اس کے بعد اس  کا انتقال  ہوگیا،  اس کی  وفات کے تقریبا گیارہ سال بعد شخص مذکور کے بیٹوں نے فضل ولی پر دعوی کیا کہ ہمارے والد نے وہ زمین آپ کو فروخت نہیں کی ہے ، لہذا یہ  زمین ہماری ہے ۔

یادر ہے کہ زمین 1984ء سے اب تک فضل ولی کے قبضہ میں ہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ شخص مذ کور جو کہ ۲۸ سال قبل فوت ہوا ہے فضل ولی نے اس کو زمین کی رقم ادا کی تھی اور زمین واپس لی تھی، اب اس پر  اس کے بیٹوں کا دعوی شرعاًدرست ہے یا نہیں ؟ جبکہ فضل ولی کے پاس رقم کی ادائیگی پر کوئی گو اہ نہیں  ہے، شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟ یاد رہے کہ 1984ء میں فوت شد ہ شخص کے بیٹے نابالغ تھے ۔

نوٹ: یاد رہے کہ میں نے شخص مذکورکے بیٹوں کے سامنے قسم اور قرآن بھی اٹھایاہے، لیکن وہ نہیں مانتے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ فضل ولی نے شخصِ مذکور کو زمین کی رقم واپس کر کے زمین اس سے لے لی تھی، اس کے بعد اٹھائیس سال تک وہ شخص حیات رہا، مگر اس نے اس زمین پر کسی قسم کا دعوی نہیں کیا اور پھر اس کی وفات کے بعد گیارہ سال تک اس کے بیٹوں نے بھی مذکورہ زمین پر کسی قسم کا دعوی نہیں کیا، اس لیے اتنا عرصہ گزرنے کے بعد شخصِ مذکور کے بیٹوں کا اس زمین کی ملکیت کا دعوی کرنا درست نہیں ہے اور عدالت اس کے دعوی کو رد کر سکتی ہے، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کی شخص کی ملکیت میں پندرہ سال تک کوئی چیز زیرِ استعمال رہے اور صاحبِ حق اس چیز کی ملکیت کا دعوی نہ کرے تو عدالت اس کے اتنا عرصہ خاموش ہونے کی وجہ سے اس کے دعوی کو نہیں سنے گی اور یہی حکم پنچائت کا ہو گا، کیونکہ اس کی حیثیت بھی قائم مقام قاضی کے ہوتی ہے۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 333) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
             الباب الثاني في حق مرور الزمن: المادة (1660) لا تسمع الدعاوى غير العائدة لأصل الوقف   أو للعموم كالدين الوديعة والعقار الملك والميراثوالمقاطعة في العقارات الموقوفة أو التصرف بالإجارتين والتولية المشروطة والغلة بعد تركها خمس عشرة سنة.
 مجلة الأحكام العدلية (ص: 336) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1669) إذا ترك أحد الدعوى بلا عذر على الوجه الآنف ووجد مرور الزمن فكما لا تسمع الدعوى في حياته لا تسمع من ورثته بعد مماته أيضا.
المادة (1670) إذا ترك المورث الدعوى مدة وتركها الوارث أيضا مدة وبلغ مجموع المدتين حد مرور الزمن فلا تسمع.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے