021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایہ پر لی گئی مشنری وقت سے پہلے فارغ کرنے کی صورت میں کرایہ کا حکم
81451اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

دو فریقوں کے درمیان تحصیل دار کی موجودگی میں سن 2012ء میں درج ذیل ایگریمنٹ ہوا کہ فریق اول فریق دوم کی چلتی پن چکی میں بجلی چلانے کا سسٹم لگائے گا، (مشین) جس کا ماہانہ کرایہ 4 سال تک مبلغ 3000 اور ہر چار سال بعد کرایہ میں 10 فیصد ماہانہ اضافہ کیا جائے گا اور یہ ایگریمنٹ / معاہدہ 20 سال تک ہوا ہے اور فریقین اس معاہدہ کے 20 سال تک پابند ہوں گے اور جس فریق کی جانب سے معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی وہ نقصان کا ذمہ دار ہوگا ۔ اور ڈونر تنظیم کی جانب سے نئی بلڈنگ کا تقاضا تھا، مگر خود ہی ڈونرنے سابقہ بلڈ نگ کو برقرار رکھ کر بلڈنگ کی ہیت کی تبدیلی کی وجہ سے فریق اول سے کہا کہ مبلغ 150,000 لاکھ روپے فریق دوم کو ادا کرے گا، مگر تکرار کے بعد فریقین مبلغ 70,000 روپے پر راضی ہو گئے اور معاہدہ کے مطابق فریق اول نے فریق دوم کی پن چکی کی بلڈنگ کی بہت تبدیلی کر کے ہائیڈل لگا کر بجلی چلائی، مگر 4 سال ایک ماہ آٹھ دن بعد فریق اول نے بجلی بند کی اور پروجیکٹ چلانے میں ناکام ہوا، جس میں فریق دوم کی کسی قسم کی مداخلت نہ تھی ۔ بجلی بند ہونے کے بعد تقریبا دو سال تک مشنری وہاں موجود رہی اور عرصہ چھ سال بعد فریق اول نے بلڈ نگ خالی تو کی مگر فریق دوم کو مطلع کبھی نہ کیا ۔

اب قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1 : شرعاً اس بیسں سالہ ایگریمنٹ / معاہدہ کی حیثیت کیا ہے ؟

2 : فريق دوم معاہدہ کی رو سے 20 سال کے کرایہ کا حقدار ہے یا نہیں ؟

3 : فریق دوم بجلی چلنے کے چار سال ایک ماہ کا کرایہ طلب کر سکتا ہے یا مشنری اٹھانے کی مدت یعنی چھ سال کا،نیز اگر چھ سال کےکرایہ کا حقدار ہے تو طے شدہ چار سال بعد 10 فیصداضافہ کے ساتھ کرایہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

4 : فریق اول نے بلڈنگ میں تبدیلی کر کے جو نقصان کیا ہے اس کا فریق دوم تقاضاکر سکتا ہے یا نہیں یا جو رقم معاہدہ کے وقت طے ہوئی تھی اس کا حق دار ہے ؟

     وضاحت: سائل نے بتایا کہ ہم نے عمارت کرایہ پر دی تھی، اس کو پن چکی لگا کر بجلی بنانے کے لیے اس کے حساب سے تبدیلی ضروری تھی، اس لیے ہم نے یہ طے کیا تھا کہ آپ معاملہ ختم کرتے وقت اتنی رقم ادا کرو گے، اب وہ ہماری عمارت خراب کر کے چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اس لیے ہم نے ان سے عمارت کے نقصان کی تلافی کا مطالبہ کیا ہے۔ چھ سال گزرنے کے بعد مقامی پنچائت نے ہمارے درمیان فیصلہ کیا اور ہمارے معاہدے کو ختم کرکے اس کے ذمہ گزشتہ رقم واجب کر دی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق بیس سال کے لیے عمارت کرایہ پر دینا درست ہے، کیونکہ اس میں کرایہ کی مدت اور کرایہ کی مقدار دیگر چیزیں وغیرہ طے تھیں، اس لیے شرعی اعتبار سے فی نفسہ مذکورہ معاہدہ درست ہے، البتہ اس میں عمارت کی ہیئت تبدیل کرنے کے عوض اختتام پر بہرصورت ستر ہزار روپے کا مطالبہ کرنا درست نہیں، کیونکہ شرعی اصول یہ ہے کہ کرایہ پر لی گئی چیز امانت ہوتی ہے اور اسی حالت میں چیز واپس کرنا کرایہ دار کی ذمہ داری ہوتی ہے، لہذا اگر کرایہ دار اس میں کوئی نقصان کر دے تو اس نقصان کی تلافی اس کے ذمہ لازم ہوتی ہے، اس لیے اصولی طور پر  کرایہ دار یعنی فریقِ اول اس نقصان کے مطابق رقم ادا کرنے کا پابند ہے، خواہ وہ رقم ستر ہزار روپے سے کم ہو یا زیادہ۔

2۔جب پنچائت نے فریقین کے درمیان معاہدہ ختم کرکے فریقِ اول کے ذمہ رقم واجب کر دی تو اب آپ بیس سال کے کرایہ کا مطالبہ نہیں کر سکتے، خصوصاً جبکہ چھ سال گزرنے کے بعد فریقِ اول نے اپنی مشنری منتقل کر کے آپ کی عمارت خالی کر دی ہے۔

3۔چار سال تک فریقِ اول نے باقاعدہ آپ کی عمارت کو استعمال کیا اور اس کے بعد دو  سال تک  ان کی مشنری آپ کی عمارت میں پڑی رہی اور عمارت ان کے قبضہ میں رہی، اس لیے ان چھ سالوں کا کرایہ آپ ان سے وصول کر سکتے ہیں، نیز آخری دو سالوں کا کرایہ معاہدہ کے مطابق دس فیصد اضافہ کے ساتھ وصول کرنا بھی جائز ہے۔ البتہ مشنری منتقل کرنے کے بعدفریقِ اول کی ذمہ داری تھی کہ وہ عمارت خالی کر کے آپ کو اطلاع کرتے، لہذا چھ سال گزرنے کے بعد ان کے اطلاع نہ کرنے کی وجہ سے اگر آپ کے علم میں یہی تھا کہ ہماری عمارت فریقِ اول کے زیرِ استعمال ہے اور ہمارا کرایہ داری کا معاہدہ جاری ہے  تو ایسی صورت میں آپ ساتویں سال   پنچائت کے فیصلہ کرنے تک گزشتہ مہینوں کا کرایہ بھی وصول کر سکتے ہیں، کیونکہ کرایہ داری کا معاملہ خود بخود ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیےفریقین کی باہمی رضامندی یا کسی عذر کی بناء پر اجارہ کا معاملہ ختم کرنے والے فریق کا دوسرے فریق کو اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے، اس لیے کرایہ داری کا معاملہ شرعًا جاری رہنے کی وجہ سے آپ ساتویں سال کے اتنے مہینوں کے کرایہ کے بھی حق دار ہیں۔

4۔ فریق اول نے عمارت میں تبدیلی کر کے جو نقصان کیا ہے فریق دوم اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، جہاں تک معاہدہ میں طے کی گئی رقم  (70000روپے) وصول کرنے کا تعلق ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر عمارت کی تبدیلی کی وجہ سے سترہزارروپے کی مالیت کا نقصان ہوا ہو تو اتنی رقم وصول کر سکتے ہیں اور اگر اس سے کم وبیش نقصان ہو تو اس کے مطابق وصول کرنا جائز ہے، جیسا کہ سوال نمبر1کے جواب میں تفصیل گزر چکی ہے۔

نوٹ: پیچھے ذکر کیے گئے جوابات سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال اور کرایہ داری کے معاہدہ کے مطابق ہے، اس کے بعد پنچائت نے فریقین کے درمیان ان کی باہمی رضامندی کے ساتھ جو فیصلہ کیا ہے، وہ ہمارے سامنے نہیں ہے، لہذا اس فیصلے میں اگر کسی فریق نے دوسرے فریق کو کوئی رقم معاف کر دی ہے تو اس کا حکم پنچائت کے فیصلے کے مطابق ہو گا، لہذا اگر چاہیں تو پنچائت کا فیصلہ نقل کر کے دوبارہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4/ 411) دار الفكر،بيروت:
وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا. ومنها بيان محل المنفعة حتى لو قال: آجرتك إحدى هاتين الدارين أو أحد هذين العبدين، أو: استأجرت أحد هذين الصانعين لم يصح العقد. ومنها بيان المدة في الدور والمنازل والحوانيت وفي استئجار الظئر. وأما بيان ما يستأجر له في إجارة المنازل فليس بشرط حتى لو استأجر شيئا من ذلك ولم يسم ما يعمل فيه جاز، وأما في إجارة الأرض فلا بد من بيان ما يستأجر له.
الفتاوى الهندية (4/ 458) دار الفكر،بيروت:
وإذا تحقق العذر ذكر في بعض الروايات أن الإجارة لا تنقض وفي بعضها تنقض، ومشايخنا وفقوا فقالوا: إن كانت الإجارة لغرض ولم يبق ذلك الغرض أو كان عذر يمنعه من الجري على موجب العقد شرعا تنتقض الإجارة من غير نقض كما لو استأجر إنسانا لقطع يده عند وقوع الأكلة أو لقطع السن عند الوجع فبرئت الأكلة وزال الوجع تنتقض الإجارة لأنه لا يمكنه الجري على موجب العقد شرعا، وإن استأجر دابة بعينها إلى بغداد لطلب غريم له أو لطلب عبد آبق له ثم حضر الغريم وعاد العبد من
الإباق تنتقض الإجارة لأنها وقعت لغرض وقد فات ذلك الغرض وكذا لو ظن أن في بناء داره خللا فاستأجر رجلا لهدم البناء ثم ظهر أنه ليس في البناء خلل أو استأجر طباخا لوليمة العرس فماتت العروس بطلت الإجارة. كذا في فتاوى قاضي خان. وكل عذر لا يمنع المضي في موجب العقد شرعا ولكن يلحقه نوع ضرر يحتاج فيه إلى الفسخ. كذا في الذخيرة.
وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 76) دار الفكر-بيروت:
(قوله تفسخ) إنما قال: تفسخ؛ لأنه اختار قول عامة المشايخ وهو عدم انفساخ العقد بالعذر وهو الصحيح نص عليه في الذخيرة، وإنما لم ينفسخ لا لإمكان الانتفاع بوجه آخر؛ لأنه غير لازم، بل؛ لأن المنافع فاتت على وجه يتصور عودها ذكره في الهداية ابن كمال. وفي الفتاوى الصغرى والتتمة: إذا سقط حائط أو انهدم بيت من الدار للمستأجر الفسخ ولا يملكه بغيبة المالك بالإجماع، وإن انهدمت الدار كلها فله الفسخ من غير حضرته، لكن لا تنفسخ ما لم يفسخ؛ لأن الانتفاع بالعرصة ممكن.
المبسوط للسرخسي (15/ 169) دار المعرفة – بيروت:
ولو كفل كفيل بشيء من هذه الأمتعة الأجر عن المستأجر فالكفالة باطلة؛ لأن العين أمانة في يد المستأجر والكفالة بالأمانات لا تصح والإجارة جائزة؛ لأن الكفالة لم تكن مشروطة فيه، وإن أعطاه بالأجر كفيلا فهو جائز؛ لأنه مضمون في ذمة المستأجر.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

25/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے