021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں دونابالغ بچوں کوگھر دینااورباقی کو محروم کرنا
81444ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

 ایک گھرجوکہ والد نے دو بچوں کے نام کیا جب بچے نابالغ تھے،پھروالد کی زندگی میں ہی وہ بالغ ہوگئے، اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا، تو یہ گھر اب ان دونوں کا ہے یا یہ سب بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگا ؟ بہنیں 5 ہیں اوربھائی 7 ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اولاد کو کچھ دیناوراثت نہیں بلکہ عطیہ ہے اورباپ کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں کہ وہ ازندگی میں اپنے کسی بیٹے کو عطیہ دے اور کسی کو نہ دے، بلکہ عطیہ کے متعلق بیٹے اور بیٹی کی  تفریق کرنا بھی درست نہیں ہے،تمام اولاد کو برابر برابرعطیہ دینا چاہیے،صورتِ مسئولہ میں  جب والد کی ان کےدوبچوں کے علاوہ بھی اولادتھیں تو پھر صرف ان دو بچوں کو گھر دینا اورباقیوں کو نہ دینا اوراس کے بدلے میں کچھ اور بھی نہ دینا (اگرانہوں نے ایسا کیاہوتو) ان کا  یہ فعل غیر شرعی تھا، تاہم اس طرح کرنے سےوالد گناہگار تو ہوا،مگر جب انہوں نے ایسا کرہی لیا اورصرف ان دو نابالغ بیٹوں کومذکورہ گھر ہبہ کرنے کی نیت سے ان کے نام کردیا تو اب یہ گھر صرف ان دو بیٹوں کی ملک میں داخل ہوچکاہے،لہذا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی اور باقی بہن بھائیوں کا اس میں حصہ نہیں ہوگا،ہاں عطیہ کردہ  اس گھر کےعلاوہ مرحوم نے موت کےوقت جو بھی مال ودولت چھوڑ اہے اس میں میراث جاری ہوگی اوراس میں دیگر ورثہ کی طرح اس دو بچوں کابھی پورا پورا حق ہوگااورمذکورہ گھر ہبہ میں ملنے کی وجہ سے ان کےمیراث والے حصے میں کمی نہیں ہوگی۔

 تاہم  اگر مذکورہ دونوں  بیٹے اپنے والد کو تفریق کی گناہ سےبچانا چاہتے ہیں تو اس کا حل یہ ہےکہ یہ دونوں بیٹے اپنی دلی رضاء سے عطیہ میں لیےہوئے گھرکو مال متروکہ میں شامل کرکے تمام ورثاءمیں ان  کےحصہ میراث کے بقدر تقسیم کردیں تاکہ ان کے والدگناہ سے بچ سکیں،تاہم ان پر اس حوالےسے جبر نہیں کیا جاسکتا،صرف یہ ترغیب دی جاسکتی ہے کہ اگرمرنے والے کے غلط اقدام کی اصلاح کی جاسکتی ہوتو اخروی معاملات اور حقوق العباد کے پیش نظر ایسا کرلینا چاہیے ۔

حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 176)
عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين.
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 177)
عن ابن عباس قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« سووا بين أولادكم فى العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء ».
وفی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400
رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار.
رد المحتار - (ج 24 / ص 42)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
رد المحتار - (ج 24 / ص 42)
( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

25/3/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے