021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں بیٹوں کو زمین کا قبضہ نہ دینے کی صورت میں وراثت شمار ہو گی
81476میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص پیر سعید شاہ نے اپنے نام پر مختلف جگہوں پر جائیداد خریدی ہے، ایک جگہ ایک زمین تقریبا 5-6 کنال اپنے دوبیٹوں پیر سیدکمال شاہ اور پیر سید فیروزشاہ کے نام خریدی ہے، پیر سعید شاہ 1986ء میں وفات پاچکا ہے، پیر سعید شاہ نے اپنی زندگی میں پیر سید کمال شاہ اور پیر سید فیروزشاہ کو اس زمین کا نہ قبضہ میں دیا تھا اور نہ زبانی بتایاتھا کہ یہ آپ دونوں بھائیوں کی خصوصی زمین ہے، پیر سعید شاہ کے ورثاء میں تین بیٹے1۔پیرسید کمال شاہ 2۔ پیرسیدفیروزشاہ 3۔پیر سید جوہرشاہ اور چھ بیٹیاں1۔ آمنہ بی بی 2۔ محسن بى بى 3۔ فہميده بى بى 4۔ فصيح بیگم 5۔ خیرالوریٰ 6۔ خالدة توحيد ہیں،  جن میں سے محسن بی بی اور فصیح بیگم غیر شادی شدہ لاولد فوت ہوچکی ہیں،  بیٹیوں میں آمنہ بی بی اور خیرالوریٰ بھی فوت ہوچکی ہیں، لیکن ان کی اولاد ہیں، بیٹیوں میں فہمیدہ بیگم اور خالدۃ توحید زندہ ہیں، خالدۃ توحید حلفیہ اقرار کرتی ہے کہ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا تھا کہ مذکورہ زمین میری بیٹیوں کی ہے اور 1986ء سے پہلے سے 2020ء تک اس زمین کی آمدن پیر سعید شاہ کی بیٹیاں حاصل کرتی رہی ہیں، 2020ء کے بعد اس زمین کی حاصلات فہمیدہ بیگم کا شوہر یعنی پیر سعید شاہ کا داماد پیر شجاعت شاہ لے رہا ہے، نیز پیر سعید شاہ مرحوم کی زندگی میں پیر سید کمال شاہ اور پیر سید فیروز شاہ نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے، اب اس زمین کی وراثت کیسے ہوگی؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ پیر سعید شاہ مرحوم نے اپنی بیٹیوں کو بھی اس زمین کا باقاعدہ قبضہ نہیں دیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق پیر سعید شاہ نے اپنی زندگی میں اپنے دونوں بیٹوں کے نام سے خریدی گئی زمین کا قبضہ نہیں دیا تھا، اسی طرح سائل کے بقول انہوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی باقاعدہ زمین کا قبضہ نہیں دیا تھا، جبکہ زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کوئی حصہ اپنی اولاد یا کسی اور کو دینا ہبہ(ہدیہ/ گفٹ) کہلاتا ہے اور ہبہ کے شرعاً درست ہونے کے لیے باقاعدہ قبضہ دینا ضروری ہے، قبضہ نہ دینے کی صورت میں موہوب لہ (جس کو ہدیہ کے طور پر چیز دی گئی ہو) اس زمین کا مالک نہیں بنتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین پیرسعیدشاہ کی زندگی میں شرعًا ان کی ملکیت میں رہی اور اب ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی۔

وراثت کی تفصیل یہ ہے کہ مرحوم  نےبوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا، چاندی، نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاوران کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے،ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز  وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کی اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دوگنا حصہ دیا جائے۔ لہذا پیچھے ذکر کیے گئے حقوق ادا کرنے کے بعد باقی ترکہ کو بارہ (12) حصوں میں برابر تقسيم كر كے مرحوم کےہربیٹے کودو (2) حصے اور ہربیٹی کو  ایک حصہ دے دیا جائے، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا

2

16.666%

2

بیٹا

2

16.666%

3

بیٹا

2

16.666%

4

بیٹی

1

8.333%

5

بیٹی

1

8.333%

6

بیٹی

1

8.333%

7

بیٹی

1

8.333%

8

بیٹی

1

8.333%

9

بیٹی

1

8.333%

واضح رہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد جو ورثاء وفات پا چکے ہیں وہ بھی مرحوم کی وراثت میں اپنے شرعی حصے کے مطابق حق دار ہوں گے اور ان کا حصہ ان کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا، البتہ جن اقرباء کا انتقال مرحوم کی زندگی میں ہو گیا ہو وہ مرحوم کے ترکہ سے کسی حصے کے حق دار نہیں ہوں گے۔

 

حوالہ جات
      القرآن الکریم : [النساء:11]
       يوصيكم اللَّه في أَولَادكم للذكَر مثل حظ الأنثيينِ.
      السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:
وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنین فصاعدا، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن.
الموسوعة الفقهية الکویتية ، 3 / 22، دار السلاسل:
"وللإرث شروط ثلاثة … ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث".

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

27/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے