021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں عورت علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے
81638طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں عورت علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے

شوہر كا بيان:

 2011ء میں غصے میں کہا میں تم کو آزاد کرتا ہوں۔ اس کے بعد رجوع یا دوبارہ نکاح کچھ نہیں کیا، 2014 میں کہا میرا تم سے کوئی تعلق نہیں اور 2018ء میں کہا میں تجھ کو طلاق دیتا ہوں۔ میں اپنی بیوی کو پہلے ایک طلاق دے چکا ہوں، اس دفعہ میری بیوی بہت شدید غصے میں تھی، بہت منایا اورسمجھایا، مگر وہ نہ مانی، بالآخر میں نے یہ الفاظ ادا کیے کہ اگر میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو بتادو میں تم کو طلاق دے دیتا ہوں۔ یہ جملہ میں نے ایک مرتبہ کہا۔ جبکہ میری بیوی کا کہنا یہ ہے کہ لفظ اگر کے بغیر یہ جملہ کہا اور دو مرتبہ کہا ہے۔ ہم نےآس اکیڈمی لاہور مفتی شاہد صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کی بیوی کے پاس گواہ ہیں تو ٹھیک، ورنہ آپ پر قسم آئے گی۔ یعنی آپ قسم اٹھا کر کہیں کہ میں نے لفظ اگر کے ساتھ یہ جملہ کہا تھا۔ شوہر نے قسم اٹھائی کہ میں اللہ تعالیٰ کو حاظر وناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں کہ میں نے لفظِ اگرلگایا تھا اور صرف ایک مرتبہ کہا تھا۔ اس پر انہوں نے دارالافتاء سے فتوی جاری کیا کہ اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، لہذا آئندہ کے لیے شوہر کو ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

عورت کا بیان:

عورت کا کہنا ہے کہ 2018ء میں دو مرتبہ طلاق دی تھی، البتہ اس سے پہلے 2011ء کی طلاق کے بعد دوبارہ نکاح نہیں کیا تھا، کیونکہ ہمیں علم نہیں تھا کہ ان الفاظ سے طلاق ہو جاتی ہے، اس کے بعد 2019ء میں تجدید نکاح کیا اور اب جون 2023ء میں شوہر نے میرے اوپر غلط الزامات لگائے اور کہا قرآن کے اوپر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاؤ، میں نے کہا قرآن اس مقصد کے لیے نہیں آیا۔ اس پر شوہر نے کہا کہ تم ہاتھ نہیں رکھ رہی، اس کا مطلب ہے کہ تم میرے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی، تو ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ شوہر نے یہ جملہ دو مرتبہ ادا کیا۔عورت کے بقول جو واقعہ حقیقت میں پیش آیا ہے اس نے بعینہ درست لکھا ہے، اس میں کسی غلط بیانی کا ارتکاب نہیں کیا گیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید جاننا چاہیے کہ میاں اور بیوی کے درمیان  طلاق کے معاملے میں اختلاف کی صورت میں دیانت اور قضاء کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے، قضاءً مرد کا قول اور دیانتاً عورت کا قول معتبر ہوتا ہے، قضاءً کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جائے اور عورت کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہ ہوں تو قاضی مرد سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا اور اس صورت میں خاوند اگر جھوٹا ہوا تو اس کا گناہ  اور وبال اسی پر ہو گا اوردیانتاً یعنی "فیما بینہ وبین اللہ" شرعاً عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ دیانتاً کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت  خودخاوند سے تین  طلاق کے الفاظ سن لے  یا اس کو کسی عادل اور دیندار آدمی کے خبر دینے سے شوہر کی طرف سے تین طلاقیں دینے کا یقین ہو جائے تو وہ شرعاً اپنی ذات کے حق میں اسی پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے لیے خاوند کو اپنے اوپرہمبستری وغیرہ کے لیےقدرت دینا اور اس کے ساتھ رہنا  ہرگز جائز نہیں ہوتا۔( بعض فقہائے کرام نے طلاقِ بائن کا بھی یہی حکم لکھا ہے، کیونکہ اس طلاق سے بھی  نکاح فورا ختم ہو جاتا ہے اور عورت مرد پر حرام ہو جاتی ہے کذا فی البحرالرائق)۔کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:"المرٲة کالقاضی" یعنی عورت کا حکم قاضی کی طرح ہے، مطلب یہ کہ جس طرح قاضی ظاہری صورتِ حال کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح عورت  پربھی خاوند کے ظاہری الفاظ کے مطابق عمل کرنا لازم ہے، اگرچہ عدالت گواہی نہ ہونے کی وجہ سے خاوند کے حق میں فیصلہ کردے،کیونکہ ایسی صورت میں عورت درحقیقت دیانت پر ہی عمل کرنے کی پابند ہے۔

لہذا صورتِ مسؤلہ  میں اگر بیوی  غلط بیانی سے کام نہیں لے رہی، بلکہ واقعتاً اس کے خاوند نے وہی الفاظ کہے ہیں جن کا عورت دعوی کر رہی ہے  تو دیانتاً بیوی کی بات معتبر مانی جائے گی  اور بیوی کے بیان کے مطابق جون 2023ء میں شوہر نے  اس کو یہ الفاظ"تم قرآن پر  ہاتھ نہیں رکھ رہی، اس کا مطلب ہے کہ تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" کہے اور طلاق والا جملہ دو مرتبہ ادا کیا، جبکہ ایک طلاق شوہر 2011ء میں غصے کی حالت میں "میں تم کو آزاد کرتا ہوں"کے الفاظ کے ذریعہ دے چکا ہے۔ اس کے بعد تجدیدِ نکاح نہ ہونے کی وجہ سے 2018ء میں دی گئی طلاقیں اگر چہ واقع نہیں ہوئیں، مگر2011ء والی ایک طلاق اور 2023ء والی دو طلاقیں ملا کر مجموعی اعتبار سے   اب عورت پر  تین طلاقیں واقع ہوکر فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے  اور عورت پر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، حرمتِ مغلظہ کا مطلب یہ ہے کہ اب فریقین کے درمیان  رجوع نہیں ہو سکتا اور  موجودہ صورتِ حال میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا اور یہ اہلِ السنة والجماعت یعنی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا متفقہ مسئلہ ہے، اس لیے اب ان دونوں کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں۔ اور عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،  البتہ اگر یہ عورت  اپنے سابقہ خاوند (جس نے تین طلاقیں دی ہیں ) سے ہی نکاح کرنا چاہے تو اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عورت عدت گزارنے کے بعد غیرمشروط طور پرکسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ خاوند عورت سے ہمبستری بھی کرے، پھر وہ اپنی رضامندی سے عورت کو طلاق دیدے یا وہ وفات پا جائے تو اُس خاوند کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔

نوٹ:

 واضح رہے کہ عورت کے پاس گواہ نہ ہونے کی بناء پراگرخاوندعدالت میں  حلفیہ بیان دیدے تو قضاءً عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور قضاءً فی نفسہ یہ حکم درست ہے،کیونکہ قاضی ظاہر کا مکلف ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عدالت کے مرد کے حق میں فیصلہ کرنے کے بعدکیا عورت مرد کے لیے حلال ہو گی یا نہیں؟  تو اس کے بارے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ اگر قاضی مرد کی قسم کا اعتبار کرتے ہوئے تین طلاق کے عدمِ وقوع کا فیصلہ کر دے تو بھی عورت مرد کے لیے شرعًا و دیانتاً حلال نہیں ہو گی اور اس کا مرد کو ہمبستری وغیرہ کے لیے اپنے اوپر قدرت دینا ہرگز جائز نہیں ہو گا، چنانچہ فقہ حنفی کے ماخذ اور معتبر ترین کتاب "الاصل" (اس کو المبسوط بھی کہا جاتا ہے اوریہ حنفیہ کی ظاہر الروایہ میں سے ایک کتاب ہے)  میں امام محمدرحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہےاورحنفیہ کی دیگر کتب میں بھی یہ مسئلہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی عورت مرد کے لیے شرعاً حلال نہیں ہو گی۔البتہ اس پر سوال ہوتا ہے کہ قاضی کے مرد کے حق میں فیصلہ کرنے کی صورت میں عورت مرد سے کیسے علیحدہ رہے گی؟ تو فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس کی دو صورتیں ذکر کی ہیں:

 ایک یہ کہ عورت مرد کو  کچھ مال دے کر اپنی جان چھڑالے۔

 دوسری یہ کہ اس کے گھر سے بھاگ کر اپنے والدین یا کسی محرم رشتہ دار کے ہاں پناہ لے لے۔

اگر عورت ان میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو اور مرد اس سے زبردستی ہمبستری کرنے کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ گناہِ کبیرہ سے بچنے کی خاطرعورت مرد کو قتل کر سکتی ہے، لیکن اس قول پر فتوی نہیں ہے، اسی لیے  دیگر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے قتل کی اجازت نہیں دی، بلکہ یہ کہا کہ ایسی صورت میں سارا گناہ مرد کو ہو گا، بشرطیکہ عورت ہمبستری پر راضی نہ ہو، ورنہ وہ بھی گناہگار ہو گی۔البتہ آج کل پاکستان کی عدالتیں چونکہ قانونی اعتبار سےعورت کے قول کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اگر خاوند عورت کو زبردستی اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرے تو ایسی صورت میں عورت قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت سے رجوع کرکے  تنسیخِ نکاح  کی ڈگری لے سکتی ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (3/ 168، رقم الحدیث: 2639) دار طوق النجاة:
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها: جاءت امرأة رفاعة القرظي النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة، فطلقني، فأبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير إنما معه مثل هدبة الثوب، فقال: «أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك»
حاشية ابن عابدين (3/ 304)ايچ ايم سعيد، كراچي:
 (قوله فواحدة ديانة) لاحتمال قصده التأكيد كأنت طالق طالق فتح (قوله وثلاث قضاء) لأنه يكون ناويا بكل لفظ ثلث تطليقة، وهو مما لا يتجزأ فيتكامل فيقع الثلاث بحر عن المحيط. قال في الفتح: والتأكيد خلاف الظاهر، وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ.
تبيين الحقائق (2/ 198) دار الكتب الإسلامي:
لو قال لها أنت طالق ونوى به الطلاق عن وثاق لم يصدق قضاء ويدين فيما بينه وبين الله تعالى لأنه خلاف الظاهر والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها۔
الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني (3/ 157) إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي:
 إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد وحلف أنه لم يفعل فردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولا يسعها أن تعتد وتتزوج لأن الحاكم حكم بأنها زوجته فلا ينبغي لها أن تتزوج غيره فتركب بذلك أمرا حراما عند المسلمين تكون به عندهم فاجرة ولا يشبه هذا فيما وصفت لك قضاء القاضي به فيما يختلف فيه مما يرى الزوج فيه خلاف ما يرى القاضي.
التنبيه على مشكلات الهداية (3/ 1207) لصدر الدين عليّ بن عليّ ابن أبي العز الحنفي (المتوفى 792 هـ) مكتبة الرشد ،المملكة العربية السعودية:
هذه المسألة من فروع القضاء بالشهادة الزور في العقود والفسوخ وأنه ينفذ ظاهرًا وباطنًا عند أبي حنيفة رحمه الله، وخالفه فيها أصحابه الثلاثة أبو يوسف، ومحمد، وزفر، وبقية الأئمة رحمهم الله. وقالوا: ينفذ ظاهرًا فقط، وكان الشيخ أبو الليث السمرقندي وغيره يأخذ بقولهما في الفتوى. ويرجع قولهم حديث أم سلمة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنما أنا بشر مثلكم، وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضى (له علي) نحو ما
أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئًا فلا يأخذه؛ فإنما أقطع له قطعة من النار» رواه الجماعة، وهو يشمل العقود والفسوخ وغيرهما.
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 376) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ولو أن امرأة أخبرها ثقة أن زوجها الغائب مات عنها، أو طلقها ثلاثا أو كان غير ثقة وأتاها بكتاب من زوجها بالطلاق، ولا تدري أنه كتابه أم لا. إلا أن أكبر رأيها أنه حق" يعني بعد التحري "فلا بأس بأن تعتد ثم تتزوج"؛ لأن القاطع طارئ ولا منازع.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/421)دارالكتب العلمية، بيروت:
(لها قتله) بدواء خوف القصاص، ولا تقتل نفسها. وقال الأوزجندي: ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بينة فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها. والبائن كالثلاث، وفيها شهدا أنه طلقها ثلاثا لها التزوج بآخر للتحليل لو غائبا انتهى. قلت: يعني ديانة. والصحيح عدم الجواز قنية، وفيها: لو لم يقدر هو أن يتخلص عنها ولو غاب سحرته وردته إليها لا يحل له قتلها، ويبعد عنها جهده (وقيل: لا) تقتله، قائله الإسبيجابي (وبه يفتى) كما في التتارخانية وشرح الوهبانية عن الملتقط أي، والإثم عليه كما مر.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 62) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد، وحلف أنه لم يفعل، وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه، ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا. والحاصل أنه جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل انتهى، وفي الفتاوى السراجية إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها، وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج، ولم يقيده بالديانة، والله أعلم.
قال المصنف - رحمه الله - وقد نقل في القنية قبل ذلك عن شرح السرخسي ما صورته طلق امرأته ثلاثا، وغاب عنها فلها أن تتزوج بزوج آخر بعد العدة ديانة ونقل آخر أنه لا يجوز في المذهب الصحيح اهـ.
قلت إنما رقم لشمس الأئمة الأوزجندي، وهو الموافق لما تقدم عنه، والقائل بأنه المذهب الصحيح العلاء الترجماني ثم رقم بعده لعمر النسفي، وقال حلف بثلاثة فظن أنه لم يحنث، وعلمت الحنث، وظنت أنها لو أخبرته ينكر اليمين فإذا غاب عنها بسبب من الأسباب فلها التحلل ديانة لا قضاء قال عمر النسفي سألت عنها السيد أبا شجاع فكتب أنه يجوز ثم سألته بعد مدة فقال إنه لا يجوز، والظاهر أنه إنما أجاب في امرأة لا يوثق بها اهـ.
كذا في شرح المنظومة، وفي البزازية شهد أن زوجها طلقها ثلاثا إن كان غائبا ساغ لها أن تتزوج بآخر، وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج إلى القضاء بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج. اهـ.
وفيها سمعت بطلاق زوجها إياها ثلاثا، ولا تقدر على منعه إلا بقتله إن علمت أنه يقربها تقتله بالدواء، ولا تقتل نفسها، وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة تحلفه فإن حلف فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها، والبائن كالثلاث. اهـ. وفي التتارخانية. وسئل الشيخ أبو القاسم عن امرأة سمعت من زوجها أنه طلقها ثلاثا، ولا تقدر أن تمنعه نفسها هل يسعها أن تقتله في الوقت الذي يريد أن يقربها، ولا تقدر على منعه إلا بالقتل فقال لها أن تقتله، وهكذا كان فتوى الإمام شيخ الإسلام عطاء بن حمزة أبي شجاع، وكان القاضي الإمام الإسبيجابي يقول
ليس لها أن تقتله، وفي الملتقط، وعليه الفتوى في فتاوى الشيخ الإمام محمد بن الوليد السمرقندي في مناقب أبي حنيفة عن عبد الله بن المبارك عن أبي حنيفة أن لها أن تقتله، وفي المحيط في مسألة النظم، وينبغي لها أن تفتدي بمالها، وتهرب منه فإن لم تقدر قتلته متى علمت أنه يقربها، ولكن ينبغي أن تقتله بالدواء، وليس لها أن تقتل نفسها قلت قال في المنتقى، وإن قتلته بالآلة يجب عليها القصاص. اهـ.
الفتاوى الهندية (5/ 313) دار الفكر،بيروت:
وإذا شهد شاهدان عند المرأة بالطلاق، فإن كان الزوج غائبا وسعها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر، وإن كان حاضرا ليس لها ذلك، ولكن ليس لها أن تمكن من زوجها، وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه، وإن لم تقدر على ذلك قتلته، وإذا هربت منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بزوج                              
آخر، قال شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: ما ذكر أنها إذا هربت ليس لها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر جواب القضاء، أما فيما بينها وبين الله تعالى - فلها أن تتزوج بزوج آخر بعد ما اعتدت، كذا في المحيط.

 محمد نعمان خالد

 دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

12/ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے