021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی ایک وارث کو ہبہ کردہ اسکول اور عمارت میں بقیہ ورثاء کے حصوں کا حکم
80946ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

والدہ نے اسکول کا کاروبار کیا جس کی دو بلڈنگ ہے ایک میری ذاتی اور ایک والدہ کی، اب والدہ کے ساتھ میں ہی رہتا ہوں اور خدمت بھی میرے ہی حصے میں ہے۔ وہ اپنا اسکول اور عمارت دونوں میرے نام کرچکی ہیں زبانی طور پر، اب کیا میرے بہن بھائی اس کے اہل ہیں یا نہیں یا کیا میری والدہ یہ کر سکتی ہیں کہ ایک ہی اولاد کو یہ دے دیں جبکہ میرے والد نے سب کو سب کا حصہ اپنی حیات میں ہی دے دیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یاد رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیدادمیں سے کچھ دے تو یہ ہبہ کے حکم میں ہے اور عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو ،چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ ترجیح کے، محض نقصان پہنچانے کی غرض سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا درست نہیں،البتہ اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا وغیرہ، توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

نیز ہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے وہ اس کے قبضے میں اس طور پر دی جائے کہ اس کو مالکانہ تصرف کرنے میں کوئی رکاوٹ اور پابندی حائل نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کی والدہ نے جواسکول اور عمارت آپ کو اپنی زندگی میں دیے ہیں، اگر والدہ نے آپ کو مالکانہ تصرف کا حق دے دیا ہے اور آپ کو اس عمارت کے استعمال کرنے یا کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنے میں اور اسکول میں تصرف کرنے سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو یہ ہبہ تام ہو چکا ہے، اگر چہ اسکول اور عمارت آپ نے اپنے نام نہ کروائے ہوں۔ اب یہ اسکول اور عمارت دونوں آپ کے ہیں، آپ کی بہنوں اور بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں  اور نہ ہی مطالبہ کرنے کا حق ہے، لیکن اگر اس طور پر باقاعدہ قبضہ نہیں کرایا بلکہ صرف زبانی یا تحریری فیصلہ کیا ہے تو یہ ہبہ تام نہیں ہوا اور یہ اسکول اور عمارت بدستور آپ کی والدہ کہ ملکیت میں ہی رہیں گے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم"
مجلة الأحكام العدلية (ص: 162):
( المادة 837 ) تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض
( المادة 843 ) إيجاب الواهب إذن دلالة بالقبض
مجلة الأحكام العدلية (ص: 166):
"( المادة 866 ) إذا وهب شخص شيئا لأصوله وفروعه أو لأخيه أو لأخته أو لأولادهما أو لأخ وأخت أبيه وأمه فليس له الرجوع بعد الهبة"
شرح المجلة لرستم باز(ص:462):
"(المادة:837) تنعقدالهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض الكامل لانها من التبرعات ، والتبرع لا يتم الا بالقبض"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

20/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے