81509 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے اپنے شوہر سے کچھ چھوٹے موٹے مسائل تھے، جس کی وجہ سے مجھے لگا کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا، تو میں نے ان سے طلاق دینے کا مطالبہ کر دیا ،جس پہ وہ رضامند نہیں ہوئے اور مجھے طلاق نہیں دے رہے تھے ،تو میں نے عدالت کے ذریعے زبردستی سے خلع لی،جس پہ وہ رضامند نہیں تھے، اور میں نے دوسری جگہ نکاح کر لیا ہے۔
مجھے علم نہیں تھا کہ بغیر شرعی وجوہات کے عدالت سے خلع لینا جائز نہیں ہے، اب میرے علم میں آیا کہ شرعی وجوہات کیا ہوتی ہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میری ایک بھی وجہ شرعی نہیں ہے، آپ مجھے اس مسئلے پہ فتوی دیں کہ آیا میں اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں ہوں یا نہیں ان کے بغیر رضامندی کی خلع لی اور میرا دوسرا نکاح جائز ہے کہ نہیں۔ برائے مہربانی جلد از جلد اس مسئلے کا فتوی دے۔ حق مہر بھی واپس نہیں کیا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس کے لیے جانبین یعنی میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے، اگر عدالت شوہر کی رضامندی (خواہ زبانی ہو یا تحریری) کے ساتھ خلع کا فیصلہ کرتی ہے یا فیصلہ ہونے کے بعد شوہر اس خلع کے فیصلہ پر قولاً یا فعلاً رضامندی کا اظہار کرتا ہے ،تو شرعاً ایسا خلع معتبر ہوگا، لیکن اگر عدالت شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے دے اور فیصلہ ہونے کے بعد بھی شوہر اس پر (قولاً یا فعلاً) رضامندی کا اظہار نہ کرے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں ہوگا۔
لہٰذا پوچھی گئی میں اگر عدالت نے واقعۃً آپ کے شوہر کی رضامندی کے بغیر یکطرفہ طور آپ کو خلع کی ڈگری جاری کردی ہو اور شوہر نے خلع کا فیصلہ جاری ہونے کے بعد اس خلع کو قبول نہ کیا ہو اور نہ ہی خلع نامہ پر دستخط کیے ہوں تو شرعاً خلع نہیں ہوئی، اس لیے آپ دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے اور چوں کہ آپ تاحال اپنے شوہر کے نکاح میں ہیں اس لیے آپ کا دوسرے شخص سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ نکاح کالعدم ہے اور آپ دونوں کا میاں بیوی کی طرح ساتھ رہنا ناجائز اور حرام ہے،دونوں فی الفور علیحدگی کرلیں،اور غلطی پر توبہ و استغفار کریں، اور اپنے شوہر کے ساتھ صلح صفائی کے ذریعے معاملات درست کر کے ان کے ساتھ رہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 441):
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 132):
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا.
محمد جمال ناصر
دار الافتاءجامعہ الرشیدکراچی
03/ربیع الثانی/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جمال ناصر بن سید احمد خان | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |