021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز میں ٹوپی سر پر رکھنے کی شرعی حیثیت
81630نماز کا بیاننماز کی سنتیں،آداب اورپڑھنے کا طریقہ

سوال

میں ٹوپی پہننے کا قائل ہوں اور اس کو مستحب جانتا ہوں٬ ہماری مسجد میں بعض لڑکے بغیر ٹوپی کے نماز پڑھتے ہیں٬ ایسا نہیں ہے کہ وہ ٹوپی پہننے کو غلط سمجھتے ہوں٬ بلکہ غفلت میں ایسا کرتے ہیں٬ تو اس پر مسجد میں بعض لوگ ان کو ٹوکتے ہیں٬ کبھی ان پر طعن و ملامت بھی کی جاتی ہے٬ اور ایک مرتبہ تو ایک شخص ایک لڑکے کو ننگے سر دیکھ کر اس سے لڑنے کو تیار ہو گیا۔ مسجد کی یہ صورت حال دیکھ کر میرے ذہن میں فقہ کا وہ اصول آیا جس میں ہے کہ جب کسی مستحب کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک پر ملامت کی جائے تو اس وقت اس مستحب کا ترک لازم ہےتو میں نے بنا ٹوپی کے نماز پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد سے کسی ایسے شخص کو تو کچھ نہیں کہا جاتا ہے جو ننگے سر نماز پڑھتا ہو۔ لیکن اب وہ لوگ مجھ کو ہی برا جانتے ہیں٬ مسجد میں جب کبھی امام صاحب نہیں ہوتے تھے تو وہ لوگ مجھ سے ہی نماز پڑھانے کو کہا کرتے تھے٬ لیکن اب وہ مجھے صرف ٹوپی نہ پہننے کی وجہ سے اس لائق نہیں جانتے کہ میں نماز پڑھاؤں۔ حالانکہ ٹوپی کا ترک٬ ترکِ مستحب ہے٬ جو کہ شریعت کی نظر میں جائز ہے٬ ساری امت کسی نہ کسی صورت میں مستحب کا ترک کرتی ہے٬ کوئی نوافل نہیں پڑھتا٬ کوئی اذان ہوتے ہی نماز کے لئے نہیں چلتا٬ کوئی مسواک نہیں کرتا (جس کو ہمارے اکابر نے سنت معقدہ بھی کہا ہے)٬ اور نہ جانے کتنی صورتوں میں ہم سبھی مستحبات کا ترک کرتے ہیں٬ اس پر کوئی کسی کو برا بھلا نہیں کہتا٬ کوئی کسی کو ٹوکتا تک نہیں۔ ٹوپی کا پہننا بھی مستحب ہے٬ تو پھر اس پر ہی اتنا زور کیوں دیا جائے٬ کوئی پہنے تو اچھی بات ہے٬ نہ پہنے تب بھی کوئی گناہ نہیں٬ جیسا کے مستحب کے بارے میں شرعی قاعدہ ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کو ہمارے یہاں لوگ تیار نہیں٬ ہمارے یہاں علماء بھی باتیں گول مول کر دیتے ہیں٬ کوئی پوچھے تو بتاتے ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے٬ یہ نہیں بتاتے کے جب مستحب کے ترک کو مکروہ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد خلاف اولیٰ ہے ٬ جو کہ کوئی گناہ نہیں ہے٬ شرعاً جائز ہے۔ مساجد میں امام اور مقتدی دونوں ہاتھوں پر تسبیحات پڑھ رہے ہوتے ہیں٬ یہ بھی تو خلاف اولیٰ ہے٬ مستحب تو سیدھے ہاتھ پر تسبیحات پڑھنا ہے٬ ایسے اور بھی بہت سے کام ہیں جو خلاف اولیٰ ہیں٬ لیکن وہ عوام و خواص سب کی عادت بن گئے ہیں٬ ان کو کوئی نہیں کہتا کہ یہ مکروہ ہے٬ اس کے بارے میں تو کہتے ہیں کہ اس کو کیا تو ثواب ہے اور نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں۔ تو ٹوپی کا پہننا بھی تو اسی طرح کا ایک عمل ہے کہ اس کو پہنا تو ثواب ہے، نہ پہننا تو کوئی گناہ نہیں٬ پھر اس کو مکروہ کہہ کر عام لوگوں کے ذہن میں یہ کیوں بیٹھایا جائے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے٬ یا اس کا ترک کسی اور مستحب کے مقابلے میں زیادہ برا ہے۔ جتنا برا فرض نماز کے بعد کی نفل نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنا ہے٬ ٹوپی کو نماز میں جان بوجھ کر چھوڑنا اس سے زیادہ برا تو نہیں٬ تو پھر دونوں کے تارک کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیوں؟ مجھے اس کی یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ نوافل کا ترک سبھی خاص و عام کر رہے ہیں تو کوئی کسی کو نہیں ٹوکتا لیکن ٹوپی زیادہ تر سبھی پہنتے ہیں تو اس کے تارک پر سب باتیں بناتے ہیں٬ لوگوں کو اس سے دقت نہیں ہے کہ میں نے مستحب کو جان بوجھ کر ترک کیا ہے٬ کیونکہ ایسا ہوتا تو وہ لوگ خود نوافل کا ترک نہ کرتے۔ ان کو دقت اس بات سے ہے کہ جیسا وہ کر رہے ہیں٬ ویسا ہی دوسرا شخص کیوں نہیں کر رہا۔ اگر وہ خود ٹوپی نہ پہنتے تو دوسرے کو بھی کچھ نہ کہتے۔ معاف کیجئے بات ذرا لمبی ہو گئی٬ لیکن مجھے بتائیں کیا میرے ان نظریات میں کچھ خرابی ہے٬ تاکہ میں اپنی اصلاح کروں۔ اور یہ بھی بتائیں کہ موجود صورت حال میں میرا ٹوپی نہ پہننا فقہی اصول کی روشنی میں صحیح تھا کہ نہیں؟ جب مسجد میں نماز پڑھانے والا کوئی نہیں ہوتا تو وہ مجبوراً مجھ سے ہی کہتے ہیں کہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھا دو٬ میں نے ہر مرتبہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھائی٬ لیکن میرے ذہن میں یہ بات ہے کہ یہ بھی تو مستحب پر اصرار ہی ہے٬ اس کو لازم ہی سمجھ رہے ہیں یہ لوگ٬ اس صورت میں تو مجھے امامت بھی بغیر ٹوپی کے ہی کرانی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے نظریہ کا رد ہو٬ اور عام لوگ بھی جان سکیں کہ ٹوپی اس قدر ضروری نہیں جتنا ان لوگوں نے عام لوگوں کو سمجھایا ہوا ہے۔ میرا ٹوپی نہ پہننا صرف اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں پر ٹوپی کی شرعی حیثیت واضح ہو، وہ اس کو پہنیں تو مستحب جان کر ہی پہنیں٬ اس کا درجہ جو دین میں متعین ہے٬ اس سے اوپر اس کو نہ بڑھائیں، کیونکہ ایسا کرنا اعتقادی بدعت ہے٬ اس سے لوگوں کو بچانا ٹوپی پہننے سے زیادہ ضروری ہے۔،ورنہ میں تو اسکول اور کولج تک میں ٹوپی پہن کر ہی جاتا تھا اور ہمیشہ ٹوپی کا اہتمام کیا ہے٬ لیکن اب ترک بھی دین کی تعلیمات کی روشنی میں ہی کیا ہے۔ میری عرض کی ہوئی باتوں میں سوالات بےترتیبی کے ساتھ آئے ہیں٬ آپ سے گزارش ہے سبھی کا جواب عنایت فرمائیں۔ اور موجودہ صورتحال میں ہماری مسجد میں بغیر ٹوپی کے میرا نماز پڑھنا اور بغیر ٹوپی کے نماز پڑھانے کے بارے میں جو میرے نظریات ہیں٬شرعی لحاظ سےدرست ہیں کہ نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نماز کےعلاوہ عام حالت میں سرپر ٹوپی رکھنایقینا ایک مستحسن بلکہ مستحب عمل ہے،اورننگےسررہنا ایک ناپسندیدہ اورخلاف اولی عمل ہےجوصلحاءاورشرفاء کےطریقہ کےخلاف ہے،لیکن نمازمیں سر پرٹوپی رکھنےکاحکم الگ ہے،اس لیےکہ نمازمیں چونکہ ادب اورتعظیم کےجملہ تقاضوں پر عمل شرعامطلوب ہے،لہذانمازمیں کوئی بھی ایسی وضع اختیار کرنا جوعرفامعیوب ہومکروہ قرار دیاہے، نیز نمازمیں سرپر ٹوپی رکھناسنت  سے ثابت بھی ہے،چنانچہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام اور ائمہ دین سے توارث کے ساتھ یہ سنت ثابت ہے(فتاوی دار العلوم زکریا:ج۲،ص۱۴۶)اورننگے سرنماز پڑھنے یا پڑھانےکے بارے میں کراہت پر تو اتفاق ہے ،البتہ یہ مکروہ تحریمی ہے یا کہ تنزیہی؟اس بارے میں فقہی عبارات میں اختلاف ہے، البتہ تطبیق یہ ہے کہ بطور عادت کے یا محض تکاسل وغفلت کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، جبکہ کبھی کبھار بلاعذر وبلا تکاسل کے پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے اورکسی عذر یا تواضع کی صورت میں جائز ہے اور استخفاف واہانت کی نیت سے ننگے سر نماز پڑھنے میں کفر کا خطرہ ہے،(در مختار)

چونکہ اس بارے میں فقہی روایات میں اختلاف ہے،لہذانماز میں سر پر ٹوپی رکھنے کے بارے میں تشدد درست نہیں ،بلکہ اس پرنہ تو فرض کی طرح اصرار والتزام درست ہے اور نہ ہی  اس سنت کےخلاف کرنادرست ہے،بالخصوص جب لوگ غفلت کی وجہ سے ٹوپی سر پر نہ رکھتے ہوں توایسی صورت میں ایسا عمل یقینا مکروہ تحریمی ہوگا،اور ایسی صورت میں  اصلاح کے خیال وجذبہ سے ان کی موافقت میں اس سنت کا چھوڑنا درست نہیں، بلکہ اس کا زیادہ اہتمام کرنا ضروری ہوجاتا ہے،باقی سنت یا مستحب کا التزام (لازم سمجھنا)درست نہیں، اہتمام (عملی پابندی)کرنا نہ صرف یہ کہ جائزبلکہ شرعا مطلوب ومندوب ہے۔نیز مستحبات وسنن کے ترک کا عمومی رجحان اور ابتلاء بھی کوئی دلیل نہیں، بلکہ ایسی صورت میں ایسی سنن ومستحبات کا اہتمام زیادہ مؤکد ہوجاتا ہے، باقی جو اصول آپ نے لکھا ہے:"جس میں ہے کہ جب کسی مستحب کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک پر ملامت کی جائے تو اس وقت اس مستحب کا ترک لازم ہے۔"اس کامطلب یہ ہے کہ جب کسی مستحب یا سنت کے اہتمام کے بجائے التزام ہونے لگے یعنی اسے لوگ واجب یا فرض کا درجہ دینے لگیں تو ایسی صورت میں اس کا ترک لازم ہوجاتا ہے،جبکہ ٹوپی کو کوئی بھی فرض نہیں سمجھتا، باقی لوگوں کا ننگے سر نماز پڑھنے پر نکیرمحض اس وجہ سے نہیں کہ یہ واجب یافرض ہے،بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ نماز کی ایک اہم سنت اورادب کا علانیہ ترک ہے، جس سے دوسروں کو بھی اس طرز کی دعوت ہوتی ہےجس سے یقینا ایک ماحول خراب ہوتا ہے۔   

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 641)
(وصلاته حاسرا) أي كاشفا (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر
 (قوله للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمرا مهما في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاونا بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار لأنه كفر شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز.
(قوله ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لا يفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك لأن مبنى الصلاة على الخشوع. اهـ.
۔۔۔۔۔۔۔۔ونص في الفتاوى العتابية على أنه لو فعله لعذر لا يكره وإلا ففيه التفصيل المذكور في المتن، وهو حسن. وعن بعض المشايخ أنه لأجل الحرارة والتخفيف مكروه، فلم يجعل الحرارة عذرا وليس ببعيد اهـ ملخصا
اقول: ان نص الفتاوی العتابیۃ یدل علی ان الکراھۃ تحریمیۃ حیث اطلق الکراھۃ عند عدم العذر وکذا قول بعض المشایخ حیث لم یجعلوا الحرارۃ عذرا لکشف الراس۔
و فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 27):
وإن صلى في إزار واحد يجوز ويكره وكذا في السراويل فقط لغير عذر وكذا مكشوف الرأس للتهاون والتكاسل لا للخشوع
فاقول ان العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی جمع فی الکراھۃ بین  الصلاۃ حاسرا وبینھا فی ازاراو قمیص واحد وقدقال الطحطاوی رحمہ اللہ تعالی فی حاشیتہ علی مراقی الفلاح:
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 349):
"وصلاته في السراويل" وفي إزار "مع قدرته على لبس القميص" لما فيه من التهاون والتكاسل وقلة الأدب
قوله: "وصلاته في السراويل أو في إزار" قال في الفتح والصلاة متوشحا لا تكره وفي ثوب واحد ليس على عاتقه بعضه تكره إلا لضرورة العدم والإزار يذكر ويؤنث يقال هو إزار وهي أزار ومئزر وزن منبر مثله قوله: "لما فيه من التهاون" هذا يفيد كراهة التحريم
فھذا یدل علی ان تکون  الکراھۃ فی کشف الراس ایضا  تحریمیۃوکذا اطلاق الکراھۃ ایضا دلیل علی ان المراد کراھۃ تحریم کما ھو المتبادر والمعروف
ولکن فی الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (2/ 972):
الصلاة في السراويل أو الإزار مع القدرة على لبس القميص، والصلاة حاسراً (كاشفاً) رأسه، للتكاسل، ولا بأس به بقصد التذلل، لأن مبنى الصلاة على الخشوع. والكراهة هنا تنزيهية اتفاقاً،
و فی حاشیۃ شرح الوقایۃ( ج۱،ص۱۶۸):والظاھر ان الکراھۃ ھھنا تنزیھیۃ۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۳ربیع الثانی۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے