021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اولاد کے درمیان گھر کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
81548ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں، امی کا انتقال ہوگیا ہے، والد صاحب کی عمر 87 سال ہے اور ان کی طبیعت خراب رہتی ہے۔ سب بہن بھائی والد صاحب سے کہتے تھے کہ گھر فروخت کر کے ہمیں اپنا اپنا حصہ دیدیں؛ کیونکہ بہن بھائیوں کی آپس میں نہیں بنتی، والد صاحب ہر دفع منع کرتے تھے اور کہتے تھے میں زندگی میں گھر فروخت نہیں کروں گا، میرے مرنے کے بعد گھر فروخت کردینا اور میراث تقسیم کرلینا جس طرح اللہ کا حکم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی بجلی، پانی اور گیس کا بل نہیں دیتا، اس کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اب والد صاحب نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ٹھیک ہے، مکان فروخت کردو۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ مکان بیچنے کے بعد بہن بھائیوں کا شرعی اعتبار سے کتنا کتنا حصہ بنے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے مال کا تنہا مالک ہوتا ہے، اس کے ورثا اس کی زندگی میں میراث کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔

 لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب اپنا گھر بیچ کر اس کی رقم اولاد کے درمیان تقسیم کرنے پر راضی نہ ہوں تو آپ لوگوں کا انہیں اس پر مجبور کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر وہ اپنی دلی رضامندی سے اپنا گھر اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے اور یہ شرعا "ہبہ" یعنی گفٹ ہوگا، جس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر فروخت کرنے کے بعد والد صاحب اس کی قیمت میں سے اپنی بقیہ زندگی کے لیے جتنی رقم رکھنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بعد میں کسی کے محتاج نہ ہوں۔  اس کے بعد بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر برابر حصہ دیدیں، البتہ اگر وہ میراث کے اصول کے مطابق لڑکوں کو لڑکیوں کا دگنا دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن کسی (بالخصوص لڑکیوں) کو بلا وجہ اس سے بھی کم دینا یا بالکل حصہ نہ دینا ہرگز جائز نہیں۔  

حوالہ جات
مشكاة المصابيح (2 / 183):
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا  غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال:  لا، قال : "فأرجعه". وفي رواية : أنه قال:  "أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " .  وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطیةً فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتی رسول الله صلی الله علیه وسلم، فقال: إني أعطیت ابنی من عمرة بنت رواحة عطيةً، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ". 
رد المحتار (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روي عن أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى.
وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        9/ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے