021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"اگرتم ایسا سوچ رہی ہو تو تمہیں تین طلاق” کہنے کا حکم
81558طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

محترم مفتی صاحب، طلاق کا مسئلہ دریافت کرنا ہے، مگر اس سے پہلے پس منظر بتانا چاہتی ہوں،یہ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، میں اس وقت جاب کر رہی تھی،( واضح رہے کہ یہ جاب میں اپنے شوہر کی رضامندی سے کر رہی تھی) ایک دن میں جاب سے واپس آئی تو میرے شوہر نے کہا کہ وہ نہانے جا رہے ہیں،میں نے ازراہ مذاق پوچھا کہ خیریت ہے جو آپ نہانے جا رہے ہیں، تو اس پر انہوں نےکہا کہ انہوں نے استمنا بالید کیا ہے (واضح رہے کہ میرے شوہر انٹرنیٹ پر قابلِ اعتراض مواد دیکھنے اور استمناء بالید کی عادت میں مبتلا ہیں اور میں بارہا ان کو اس بات سے منع کیا کرتی تھی، کیونکہ اس عادت کی وجہ سے یہ میرے حقوق ادا کرنے سے بھی کتراتے تھے ہر بار یہ مجھ سے وعدہ کرتے اور قسمیں کھاتے کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا،لیکن بار بار اپنا وعدہ توڑ دیتے)اس بات پر میں قدرے افسردہ ہوئی اور ان سے کہا کہ آپ کے پاس جب حلال راستہ موجود ہے تو آپ حرام کی طرف کیوں جاتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ تم میری ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہو،میں نے کہا کہ اگر میں آپ کے لیے کافی نہیں ہوں تو آپ دوسری شادی کر لیں،حرام کام تو نہ کریں، اس پر انہوں نے کہا کہ ابھی دوسری شادی کی میری مالی حیثیت نہیں ہےاور میں اس لیے بھی یہ غلط کام کرتا ہوں کہ تمہارے پاس میرے لیے وقت بھی نہیں ہے۔میں نے کہا کہ میں تو آپ کے کہنے پر ہی جاب کر رہی ہوں،اگر مسئلہ میری مصروفیات کا ہےتو میں جاب چھوڑ دیتی ہوں، تاکہ یہ مسئلہ حل ہو جائے ۔اس پر انہوں نے کہا کہ اگر تم گھر پر ہو تو بھی تم میری ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہو، میری ضرورت اتنی زیادہ ہے کہ میں مباشرت کے فورا بعد بھی استمناء بالید کرتا ہوں۔(واضح رہے کہ میں کئی مرتبہ ان سے کہہ چکی تھی کہ میں جاب چھوڑنا چاہتی ہوں اس پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہم افورڈ نہیں کرتے کہ تم جاب چھوڑ دو)۔اس وقت ہماری بات ختم ہو گئی۔

اس کے بعد میری نظر اپنی بیٹی کے لباس پر پڑی، تو میں نے دیکھا کہ اس کے کپڑے(شلوار) کچھ پھٹے ہوئے ہیں۔ (ہماری گیارہ سال کی بیٹی ہے۔اکثر و بیشتر وہ کچھ نا کچھ پھٹے ہوئے کپڑے پہن لیتی تھی ۔ میری سکول جاب تھی، میں بچوں کے سوتے ہوئے ہی گھر سے جاتی تھی اور اکثر مجھےگھر آنے میں دوپہر کے تین بج جاتے تھے۔

میں اکثر اپنے شوہر کو کہتی تھی کہ میں اگر گھر پر موجود نہ ہوں تو آپ بیٹی کو پھٹے ہوئے کپڑے نہ پہننے دیا کریں، سلائی کر کے پہننے کو دیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے توجہ نہیں دی کہ بیٹی نے پھٹے کپڑے پہنے ہوئے تھے) میاں صاحب کی گزشتہ بات چیت نے میرے ذہن میں وسوسوں کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔خیال آیا کہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ میں ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی نہیں اور پھر مجھ سے اپنی ضرورت پوری کرنے سے بھی کتراتے ہیں، کیا میں ان کے لیے کشش کھو چکی تھی؟کیا ان کی ضرورت میرے علاوہ کہیں اور سے پوری ہو جاتی ہے۔ دوسری شادی یہ مالی حیثیت کی وجہ سے کر نہیں سکتے، مجھے جاب یہ چھوڑنے نہیں دے رہے، کیا یہ میرے جاب کرنے پر اس لیے اصرار کرتے ہیں کہ میں زیادہ سے زیادہ دیر کے لیے گھر سے باہر رہوں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان کی بے انتہا ضرورت کی وجہ سے،ان کے حالات اور دیگر بری عادات کی وجہ سے یہ ہماری بیٹی کے ساتھ بد نظری میں مبتلا ہو گئےہوں، کیوں کہ بہرحال نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ پہلے سے ہی غلط عادات میں مبتلا ہیں، یہ ایسی بات تھی کہ میں اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی،میں جاننا چاہتی تھی کہ آیا وہ یہ گناہ یک طرفہ طور پر کر رہے تھے یا انھوں نے کسی نہ کسی طرح بیٹی کو لڑائی جھگڑے کا خوف دلا کر یا بلیک میل کر کے اپنے ساتھ ملوث کر لیا تھا، ایسا کچھ تھا بھی یا نہیں، یا یہ محض میری غلط فہمی تھی؟ اور اگر ایسا کچھ ہو رہا  تھا تو یہ معاملہ کتنی شدت اختیار کر گیا تھا؟ ان سب سوالوں کے جواب صرف میرے شوہر ہی دے سکتے تھے، لہذا میں نے کسی اور سے بات کرنے کی بجائے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔(یہ بات کرتے ہوئے بے حد خوف محسوس ہو رہا تھا، ذہن شدید منتشر تھا، ایک لمحے کے لیے خیال آ رہا تھا کہ یہ کبھی ایسا نہیں کر سکتے،دوسری لمحے یہ خیال آتا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں جتنا سمجھ رہی ہوں، معاملات اس سے بھی بد تر ہو چکے ہیں اور شاید میں نے توجہ کرنے میں دیر کر دی، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ہماری بیٹی کے پھٹے ہوئے کپڑوں سے جھانکتے اعضاء کو بری نظر سے دیکھتے ہوں یا بیٹی کے سوتے ہوئے اس کے ستر والے حصوں کو چھوتے ہوں اور استمنا بالید کرتے ہوں۔ کیوں کہ ان کے سابقہ ریکارڈ اور گذشتہ بات چیت کی روشنی میں یہ ظاہر تھا کہ میں ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہوں اور ان کا دل مجھ سے بھر گیا ہے، ان کو اپنی خواہش پر قابو پانا مشکل تھا اور وہ خواہش کے غلبہ میں غلط کام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے)ہمارے درمیان جو بات ہوئی وہ حرف بہ حرف درج ذیل ہے۔(واضح رہے کہ ہم دونوں ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کر رہے تھے )

میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے کئی دفعہ کہنے کے باوجود اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ بیٹی پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر گھر میں پھرتی رہتی ہے، یا تو آپ شدید لاپرواہی سے کام لے رہے ہیں یا پھر جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں،میں نے جب ان سے یہ بات کی تھی تو انہوں نے کہاکہ کیا تم میرے کردار پر شک کر رہی ہو؟تو اس پرمیں نے ان سے کہا کہ آپ کوئی ایک وجہ ایسی بتائیں اورآپ مجھے مطمئن کر دیں کہ میں ایسا نہ سوچوں۔اس پر انہوں نے کہا کہ جہاں تک تمہاری پہلی بات کا تعلق ہے تو ہاں مجھ سے یہ لاپرواہی ہو رہی ہے، اور جہاں تک تمہاری دوسری بات کا تعلق ہے تو جو کہہ رہی ہو،اگر میرے بارے میں ایسا سوچ رہی ہو تو میری طرف سے تمہیں تین طلاق،کیوں کہ اگر مجھے ایسا انسان سمجھتی ہو تو پھر ساتھ رہنا بیکار ہے۔جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ سنا دیا تو اس پر انہوں نے کہا کہ میرا مقصد اپنی بات کی سچائی کو ثابت کرنا ہے۔اگر میرے بارے میں ایسا سوچ رہی ہو یا مجھے ایسا انسان سمجھتی ہو تو میری طرف سے تمہیں تین طلاق۔براہ کرم مندر جہ بالا تحریر کی روشنی میں واضح کر دیں کہ کیا ہم بدستور میاں بیوی ہیں؟

شوہر کا بیان

اس سارے معاملے پر میرے شوہر کا بیان درج ذیل ہے:

جناب مفتی صاحب السلام علیکم مسئلہ دریافت کرنا ہے جو کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ پہلے میری اہلیہ نے چند وجوہات کی بنا پر مجھ پر شک کرتے ہوئے اشارہ کنایہ سے یہ الزام عائد کیا کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ معاذ اللہ زنا میں ملوث ہوں، میں نے اس الزام کو مسترد کر دیا، مگر اہلیہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں،واضح رہے کہ میری اور اہلیہ کی یہ بات چیت اشارہ و کنایہ میں ہو رہی تھی کیونکہ ہماری بیٹی کمرے کے نزدیک ہی تھی اور ہم اس تک یہ بات نہیں پہنچانا چاہتے تھے، دوسرے یہ بات بذات خود بھی اتنی گھناونی لگ رہی تھی کہ ہم کھلے الفاظ میں اس پر بات نہیں کر پا رہے تھے۔میں نے اپنی بات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے اور اہلیہ کے اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنی اہلیہ سے یوں کہا کہ جو کہہ رہی ہو اگر ایسا سوچ رہی ہو تو تمہیں تین طلاق۔کیونکہ ایسے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ؟ اس جملے سے میری مراد صریحا طلاق دینا نہیں تھی، بلکہ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر میں نے یہ عمل حقیقت میں کیا ہو تو اپ کو تین طلاق (اور ویسے بھی حرمت تو ثابت ہو ہی جائے گی) یعنی اہلیہ کے الزام کے درست ہونے کی شرط سے معلق کر دیا مقصد صرف اور صرف اس قبیح فعل کی نفی کرنا اور اہلیہ کے شک کو ختم کر کے انہیں یہ یقین دلانا تھا کہ جو آپ سوچ رہی ہو اور کہہ رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے،دراصل میری اہلیہ کو جس بات پر شبہ ہے وہ یہ ہے کہ میرا جملہ "جو کہہ رہی ہو اگر ایسا سوچ رہی ہو تو تمہیں تین طلاق"جبکہ میں یہ بات بتا چکا ہوں کہ ہماری یہ بات اشارہ اور کنایہ میں ہو رہی تھی یعنی مبہم الفاظ استعمال کر رہے تھے ہم کم الفاظ استعمال کر رہے تھے۔حضرت خدارا ہمیں یہ بتا دیں کہ کیا ہم بدستور میاں بیوی ہیں یا ہمارے درمیان علیحدگی ہو چکی ہے؟ جزاکم اللہ خیرا

وضاحت: سائل اور سائلہ سے فون پر بات ہوئی تو شوہر نےحلفیہ بیان دیا کہ ایسا سوچنے سے میری مراد اپنی بیٹی سے زنا کا سوچنا تھا، یعنی اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ نعوذ باللہ میں اپنی بچی سے زنا کرتا ہوں تو تمہیں تین طلاق۔ پھر سائلہ سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں استمناء بالید مع البنت کے بارے میں سوچ رہی تھی، کہ خدانخواستہ یہ بچی کے اعضاء کی طرف دیکھنے یا اس کا جسم استعمال کر کے استمناء بالید نہ کرتے ہوں؟ کیونکہ ان کو استمناء بالید کی عادت تھی،  اس نے بتایا کہ میں زنا کا نہیں سوچ رہی تھی، کیونکہ ان کو زنا کی عادت نہیں تھی۔ نیز ہماری بات کنایہ میں ہو رہی تھی، لفظوں میں زنا اور استمناء بالید کسی کی صراحت نہیں تھی، اس لیے شوہر نےمیری سوچ کو زنا پر محمول کیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق اگر آپ  کے شوہرکی ایسا سوچنے سے  واقعتاً  یہی مراد تھی کہ اگر میرے بارے میں بیٹی کے ساتھ زنا کا سوچ رہی ہو تو تمہیں طلاق۔ اوربیوی کے بیان کے مطابق وہ زنا کا نہیں سوچ رہی تھی، بلکہ وہ شوہر کی عادت کی وجہ سے بیٹی کے ساتھ استمناء بالید کا سوچ رہی تھی، (جیسا کہ سوال میں تفصیل مذکور ہے) تو اس صورتِ حال میں عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ استمناء بالید کبیرہ گناہ ہے، جس سے بچنا بہرصورت لازم ہے، خصوصاً جبکہ آپ کے پاس شرعاًایک جائز راستہ موجود ہے تو پھر آپ کا اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنا ہرگز جائز نہیں۔نیز اگر بالفرض بیوی سے آپ کی خواہش پوری نہ ہوتی ہو اور دوسری شادی کرنے کی بھی ہمت نہ ہو تو ٹھنڈی چیزیں استعمال کرکے نفسانی خواہش کو کم کیا جا سکتا ہے، لیکن بہر حال اس طرح کے گناہ کی شرعاً بالکل اجازت نہیں دی جا سکتی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 27) دار الفكر-بيروت:
في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه.             
(قوله الاستمناء حرام) أي بالكف إذا كان لاستجلاب الشهوة، أما إذا غلبته الشهوة وليس له زوجة ولا أمة ففعل ذلك لتسكينها فالرجاء أنه لا وبال عليه كما قاله أبو الليث، ويجب لو خاف الزنا (قوله كره) الظاهر أنها كراهة تنزيه؛ لأن ذلك بمنزلة ما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين تأمل وقدمنا عن المعراج في باب مفسدات الصوم: يجوز أن يستمني بيد زوجته أو خادمته، وانظر ما كتبناه هناك (قوله ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

10/ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے