021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غلط تقسیم وراثت کی تصحیح
81549میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال 2010 میں ہوا، مرحوم کے ورثاء مندرجہ ذیل افراد ہیں: دو بیٹے، چار بیٹیاں، ایک بیوہ اور والدہ۔چند روز بعد مرحوم کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا۔

2012 میں والد کی جائیداد کا کچھ حصہ تقسیم کردیا گیا لیکن مکمل تقسیم نہ ہوئی۔  اور یہ بھی خیال نہ رہا کہ مرحوم کی والدہ کا بھی مرحوم کی جائیداد میں کوئی حصہ ہوگا کیونکہ اس وقت تک وہ بھی رحلت فرما چکی تھیں۔ دادی کے ورثاء مندرجہ ذیل ہیں: 4 بیٹیاں اور ایک بیٹا جن میں سے بیٹے(جن کی جائیداد کی تقسیم کا سوال درپیش ہے) اور ایک بیٹی کا دادی کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا۔

اب سوال یہ درپیش ہے کہ:

1) دادی کا حصہ کتنا ہوگا؟   2) کیا جائیداد کی تقسیم موجودہ قیمت پر کی جائے گی؟

3) کیا دادی کا حصہ صرف انکی زندہ بیٹیوں کو جائے گا۔ مزید یہ کہ کیا پورا حصہ انکی بیٹیوں کو ہی ملے گا یا جو بیٹی وفات پا چکی انکے بچوں کو بھی ملے گا؟

4) علاؤہ ازیں کیا پوتے اور پوتیوں کا بھی دادی کے اس حصے میں کوئی حصہ ہوگا، کیونکہ دادی کا اور کوئی بیٹا نہیں تھا سوائے  مرحوم والد کے۔

5) مرحوم کی چار بیٹیوں میں سے ایک کو مرحوم نے اپنی زندگی میں الگ مکان بنا کر دیا تو کیا اس بیٹی کا بھی ترکہ میں حصہ ہوگا؟

6) نیز شرعی تقسیم ترکہ کی بھی واضح فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم  کے  انتقال کے وقت    ان کی ملک میں منقولہ غیر منقولہ  جائداد، نقدی اور چھو ٹا بڑا جو بھی سامان تھا سب مرحوم  کا ترکہ ہے، اس    میں سے کفن دفن  کا متوسط خرچہ   نکالیں، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان نہ اٹھائے ہوں۔ اس کے بعد  اگر مرحوم   کےذمے کسی   کا   قرض ہو   تو کل مال سے اس کو   ادا  کیاجائے اور والدہ کا مہر اگر والد صاحب نے ادا نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرض میں شامل ہے،اس کے بعد  اگر مرحوم  نے کوئی جائز وصیت کی  ہو تو  تہائی مال (1/3)کی حد تک اس پر عمل  کیاجائے ، اس کے بعد بقیہ مال کے192حصے کر کے درج ذیل نقشے کے مطابق تقسیم کریں۔

وارث

عددی حصہ

فیصدی حصہ

بیوی

24

12.5%

والدہ

32

16.6666%

بیٹا

34

17.7083%

بیٹا

34

17.7083%

بیٹی

17

8.8541%

بیٹی

17

8.8541%

بیٹی

17

8.8541%

بیٹی

17

8.8541%

کل

192

100%

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

۱)  والد کے ترکہ میں دادی کا حصہ 16.6666%ہوگا۔

۲) ترکہ کی تقسیم دوبارہ اور موجودہ قیمت کے اعتبار سے کی جائے گی۔

۳) دادی کے انتقال کے وقت جو بیٹیاں حیات تھیں وہ ان کی وارث ہیں اور جن کا انتقال دادی کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا وہ وارث نہیں، مزید یہ کہ نواسے اور نواسیاں بھی وارث نہیں چاہے کسی بھی بیٹی سے ہوں۔

۴) پوتے پوتیوں کا حصہ ہوگا، تفصیلات آگے نقشے میں ملاحظہ کریں۔

۵)اپنی زندگی میں مرحوم نے اپنی بیٹی کو جو مکان بنا کردیا وہ مرحوم کی طرف سے ہدیہ تھا اس کی وجہ سے وراثت کے حصہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

۶) دادی کی وراثت کی تقسیم:

دادی کے ترکہ میں ان کی ملکیت میں موجود چیزوں کے علاوہ  بیٹے (سائل کے والد) کی وراثت سے ملنے والا حصہ بھی شامل ہوگا اور وراثت کی تقسیم ذیل نقشے کے مطابق ہوگی۔

وارث

عددی حصہ

فیصدی حصہ

بیٹی

16

22.2222%

بیٹی

16

22.2222%

بیٹی

16

22.2222%

پوتا

6

8.3333%

پوتا

6

8.3333%

پوتی

3

4.1666%

پوتی

3

4.1666%

پوتی

3

4.1666%

پوتی

3

4.1666%

کل

72

100%

حوالہ جات
{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ } [النساء: 11]
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ } [النساء: 12]

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۸/ربیع الثانی/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے